بلوغ المرام - حدیث 489

كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ الزَّكَاةِ ضعيف وَعَنْ عَلِيٍّ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((إِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ - وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ - فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ، وَلَيْسَ عَلَيْكَ شَيْءٌ حَتَّى يَكُونَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا، وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ، فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٍ، فَمَا زَادَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ، وَلَيْسَ فِي مَالٍ زَكَاةٌ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ)). رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ، وَهُوَ حَسَنٌ، وَقَدِ اخْتُلِفَ فِي رَفْعِهِ. وَلِلتِّرْمِذِيِّ; عَنِ ابْنِ عُمَرَ: ((مَنِ اسْتَفَادَ مَالًا، فَلَا زَكَاةَ عَلَيْهِ حَتَّى يَحُولَ الْحَوْلُ)). وَالرَّاجِحُ وَقْفُهُ.

ترجمہ - حدیث 489

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل باب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تمھارے پاس دو سو درہم ہوں اور ان پر پورا سال گزر جائے تو ان میں پانچ درہم زکاۃ ہے۔ اور تجھ پر کوئی چیز لازم نہیں حتیٰ کہ تیرے پاس بیس دینار ہوں اور ان پر پورا سال گزر جائے‘ تو ان میں نصف دینار زکاۃ ہے۔ جو اس سے زیادہ ہوگا تو اسی حساب سے اس پر زکاۃ ہوگی۔ کسی بھی مال پر اس وقت تک زکاۃ نہیں جب تک کہ اس پر پورا سال نہ گزر جائے۔‘‘ (اسے ابوداود نے روایت کیا ہے اور یہ حسن ہے۔ اس کے مرفوع ہونے میں ائمہ نے اختلاف کیا ہے۔) اور ترمذی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ جس شخص کو مال مستفاد (سال کے دوران میں حاصل ہونے والا مال) ملا اس پر بھی سال گزرنے سے پہلے کوئی زکاۃ نہیں۔ اور راجح یہی ہے کہ یہ روایت موقوف ہے۔
تشریح : اس حدیث میں سونے اور چاندی کے نصاب زکاۃ کا بیان ہے۔ چاندی اگر دو سو درہم سے کم ہو تو اس پر کوئی زکاۃ نہیں۔ یاد رہے کہ درہم کا وزن سوا تین ماشے ہوتا ہے۔ احتیاطاً ساڑھے باون تولے نصاب زکاۃ مقرر کیا گیا ہے۔ اور سونے کے بیس دینار پر زکاۃ ہے۔ ایک دینار برابر ہے: 4.25 گرام کے جس کا کل وزن 85 گرام‘ یعنی ساڑھے سات تولے بنتا ہے۔ اور اس کی زکاۃ بھی چالیسواں حصہ ہے۔ باقی رہا مسئلہ کرنسی نوٹوں کا تو اس کی وضاحت یہ ہے کہ پہلے سونا اور چاندی نقدی کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ آج کل کرنسی نوٹ استعمال ہوتے ہیں۔ علمائے امت کا اجماع ہے کہ کرنسی کو انھی پر قیاس کیا جائے گا۔ سعودی علماء اور پاک و ہند کے علماء نے کرنسی نوٹوں کے لیے چاندی کو نصاب بنایا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اس طرح زکاۃ دینے والوں کی تعداد زیادہ ہو گی جس میں غرباء و مساکین کا فائدہ زیادہ ہے‘ اگر سونے کو نصاب بنایا جائے گا تو بہت سے اصحاب حیثیت بھی زکاۃ دینے والوں سے نکل جائیں گے‘ مثلاً: جس کے پاس تقریباً دو لاکھ روپے سے کم پیسے فاضل بچت کے طور پر ایک سال پڑے رہے ہوں گے‘ وہ بھی صاحب نصاب متصور نہیں ہوگا کیونکہ ساڑھے سات تولے سونے کی موجودہ قیمت (30 ہزار روپے فی تولہ کے حساب سے) دولاکھ پچیس ہزار ہوگی۔ یوں لاکھوں افراد اصحاب حیثیت لوگوں کے دائرے سے نکل جائیں گے جس کا سارا نقصان غرباء و مساکین اور مدارس دینیہ کو ہو گا۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال یہ اجتہادی مسئلہ ہے‘ اس لیے دونوں میں سے کسی کو بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ چاندی کا نصاب اصل ماننے کی صورت میں ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت جتنی فاضل رقم رکھنے والا صاحب نصاب ہو گا اور سونے کو کرنسی کی بنیاد ماننے کی صورت میں ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت جتنی فاضل رقم رکھنے والا صاحب نصاب متصور ہو گا‘ اور اس سے کم رقم رکھنے والا شخص زکاۃ سے مستثنیٰ ہو گا۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اسے متابعات اور شواہد کی بنیاد پر حسن قرار دیا ہے‘ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سونے اور چاندی کے نصاب کے لیے مذکورہ حدیث صحیح بنیاد ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل:۳ /۲۸۹) جامع ترمذی میں مروی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کو بھی ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس کے شواہد وغیرہ ذکر کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت دیگر شواہد کی بنیاد پر صحیح ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل: ۳ /۲۵۴-۲۵۸) مال مستفاد کی بابت حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اپنی کتاب ’’زکاۃ‘ عشر اور صدقۃ الفطر‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں: مال مستفاد کا مطلب‘ زکاۃ کی ادائیگی کے بعد‘ دوران سال میں حاصل ہونے والا مال ہے۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں جو کہ درج ذیل ہیں: 1. مالِ مستفاد اس کے پاس موجود مال کا نفع اور اسی کا ثمرہ ہو‘ جیسے تجارت کے ذریعے سے حاصل ہونے والا نفع‘ یا جانوروں سے دورانِ سال حاصل ہونے والے بچے۔ سال پورا ہونے پر یہ نفع اور جانوروں کے بچے بھی شامل ہوں گے‘ ان کا الگ حساب نہیں ہو گا‘ مثلاً: پہلے اس نے 10 ہزار روپے کی زکاۃ دی تھی‘ سال پورا ہونے تک اس کے پاس10 کی بجائے 15 یا 20 ہزار روپے ہو گئے‘ اب اسے 15 یا20 ہزار کی زکاۃ ادا کرنی ہو گی‘ اسی طرح مثلاً: اس نے پہلے ایک بکری زکاۃ میں دی تھی کیونکہ اس کے پاس 120 یا اس سے کچھ کم تھیں‘ آئندہ سال پورا ہونے تک بچے ملا کر دو سو بکریاں ہو گئیں تو اب اسے دو بکریاں زکاۃ کے طور پر دینی پڑیں گی۔ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔ 2. مالِ مستفاد اسی جنس سے ہو جس جنس کی اس نے پہلے زکاۃ ادا کی لیکن دورانِ سال ملنے والا یہ مال اس مال کا نفع یا اس کے پاس موجود جانوروں سے تولد پذیر ہونے والا نہ ہو‘ بلکہ اس نے الگ سے یہ مال خریدا ہو‘ یا ورثے یا ہبے میں اسے ملا ہو‘ اس کی بابت بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے بھی پہلی صورت کی طرح پچھلے مال سے ملا دیں گے اور سال پورا ہونے پر سب کی زکاۃ نکالیں گے لیکن یہ رائے صحیح نہیں۔ دوسری صورت کا یہ مال چونکہ پہلے مال کا نفع یا نتیجہ نہیں بلکہ اس کی الگ مستقل حیثیت ہے‘ اس لیے اس پر زکاۃ اس وقت عائد ہو گی جب اس پر الگ سال گزرے گا۔ مذکورہ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ 3. مالِ مستفاد‘ اس کے پاس موجود مال کی جنس سے نہ ہو‘ مثلاً : اس کے پاس بکریاں تھیں‘ جن کی اس نے زکاۃ ادا کر دی تھی‘ اب 6، 7 مہینے کے بعد اسے کچھ اونٹ یا گائیں مل گئی ہیں۔ اگر ملنے والا یہ مال اتنی تعداد میں ہے کہ وہ زکاۃ کے نصاب کو پہنچ جاتا ہے تو اس کی زکاۃ اس کا سال الگ پورا ہونے پر ادا کی جائے گی‘ پہلے مال کے ساتھ ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان آخری دونوں صورتوں میں مذکورہ حدیث کا انطباق ہوتا ہے۔ یہاں دونوں صورتوں میں صاحب مال اپنی خوشی سے پہلے مال کے ساتھ ہی ان کی بھی زکاۃ ادا کر دیتا ہے تو بات اور ہے‘ خوشی سے بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا مرغوب اور پسندیدہ ہی ہے‘ تاہم شرعاً ایسا کرنے کا پابند نہیں ہے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الزكاة، باب في زكاة السائمة، حديث:1573، وحديث ابن عمر أخرجه الترمذي، الزكاة، حديث:631 وسنده ضعيف- في سند أبي داود أبو إسحاق وعنعن، وفي سند الترمذي عبدالرحمن بن زيد بن أسلم ضعيف. اس حدیث میں سونے اور چاندی کے نصاب زکاۃ کا بیان ہے۔ چاندی اگر دو سو درہم سے کم ہو تو اس پر کوئی زکاۃ نہیں۔ یاد رہے کہ درہم کا وزن سوا تین ماشے ہوتا ہے۔ احتیاطاً ساڑھے باون تولے نصاب زکاۃ مقرر کیا گیا ہے۔ اور سونے کے بیس دینار پر زکاۃ ہے۔ ایک دینار برابر ہے: 4.25 گرام کے جس کا کل وزن 85 گرام‘ یعنی ساڑھے سات تولے بنتا ہے۔ اور اس کی زکاۃ بھی چالیسواں حصہ ہے۔ باقی رہا مسئلہ کرنسی نوٹوں کا تو اس کی وضاحت یہ ہے کہ پہلے سونا اور چاندی نقدی کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ آج کل کرنسی نوٹ استعمال ہوتے ہیں۔ علمائے امت کا اجماع ہے کہ کرنسی کو انھی پر قیاس کیا جائے گا۔ سعودی علماء اور پاک و ہند کے علماء نے کرنسی نوٹوں کے لیے چاندی کو نصاب بنایا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اس طرح زکاۃ دینے والوں کی تعداد زیادہ ہو گی جس میں غرباء و مساکین کا فائدہ زیادہ ہے‘ اگر سونے کو نصاب بنایا جائے گا تو بہت سے اصحاب حیثیت بھی زکاۃ دینے والوں سے نکل جائیں گے‘ مثلاً: جس کے پاس تقریباً دو لاکھ روپے سے کم پیسے فاضل بچت کے طور پر ایک سال پڑے رہے ہوں گے‘ وہ بھی صاحب نصاب متصور نہیں ہوگا کیونکہ ساڑھے سات تولے سونے کی موجودہ قیمت (30 ہزار روپے فی تولہ کے حساب سے) دولاکھ پچیس ہزار ہوگی۔ یوں لاکھوں افراد اصحاب حیثیت لوگوں کے دائرے سے نکل جائیں گے جس کا سارا نقصان غرباء و مساکین اور مدارس دینیہ کو ہو گا۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال یہ اجتہادی مسئلہ ہے‘ اس لیے دونوں میں سے کسی کو بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ چاندی کا نصاب اصل ماننے کی صورت میں ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت جتنی فاضل رقم رکھنے والا صاحب نصاب ہو گا اور سونے کو کرنسی کی بنیاد ماننے کی صورت میں ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت جتنی فاضل رقم رکھنے والا صاحب نصاب متصور ہو گا‘ اور اس سے کم رقم رکھنے والا شخص زکاۃ سے مستثنیٰ ہو گا۔ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اسے متابعات اور شواہد کی بنیاد پر حسن قرار دیا ہے‘ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سونے اور چاندی کے نصاب کے لیے مذکورہ حدیث صحیح بنیاد ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل:۳ /۲۸۹) جامع ترمذی میں مروی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کو بھی ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے اور اس کے شواہد وغیرہ ذکر کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت دیگر شواہد کی بنیاد پر صحیح ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل: ۳ /۲۵۴-۲۵۸) مال مستفاد کی بابت حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اپنی کتاب ’’زکاۃ‘ عشر اور صدقۃ الفطر‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں: مال مستفاد کا مطلب‘ زکاۃ کی ادائیگی کے بعد‘ دوران سال میں حاصل ہونے والا مال ہے۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں جو کہ درج ذیل ہیں: 1. مالِ مستفاد اس کے پاس موجود مال کا نفع اور اسی کا ثمرہ ہو‘ جیسے تجارت کے ذریعے سے حاصل ہونے والا نفع‘ یا جانوروں سے دورانِ سال حاصل ہونے والے بچے۔ سال پورا ہونے پر یہ نفع اور جانوروں کے بچے بھی شامل ہوں گے‘ ان کا الگ حساب نہیں ہو گا‘ مثلاً: پہلے اس نے 10 ہزار روپے کی زکاۃ دی تھی‘ سال پورا ہونے تک اس کے پاس10 کی بجائے 15 یا 20 ہزار روپے ہو گئے‘ اب اسے 15 یا20 ہزار کی زکاۃ ادا کرنی ہو گی‘ اسی طرح مثلاً: اس نے پہلے ایک بکری زکاۃ میں دی تھی کیونکہ اس کے پاس 120 یا اس سے کچھ کم تھیں‘ آئندہ سال پورا ہونے تک بچے ملا کر دو سو بکریاں ہو گئیں تو اب اسے دو بکریاں زکاۃ کے طور پر دینی پڑیں گی۔ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔ 2. مالِ مستفاد اسی جنس سے ہو جس جنس کی اس نے پہلے زکاۃ ادا کی لیکن دورانِ سال ملنے والا یہ مال اس مال کا نفع یا اس کے پاس موجود جانوروں سے تولد پذیر ہونے والا نہ ہو‘ بلکہ اس نے الگ سے یہ مال خریدا ہو‘ یا ورثے یا ہبے میں اسے ملا ہو‘ اس کی بابت بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے بھی پہلی صورت کی طرح پچھلے مال سے ملا دیں گے اور سال پورا ہونے پر سب کی زکاۃ نکالیں گے لیکن یہ رائے صحیح نہیں۔ دوسری صورت کا یہ مال چونکہ پہلے مال کا نفع یا نتیجہ نہیں بلکہ اس کی الگ مستقل حیثیت ہے‘ اس لیے اس پر زکاۃ اس وقت عائد ہو گی جب اس پر الگ سال گزرے گا۔ مذکورہ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ 3. مالِ مستفاد‘ اس کے پاس موجود مال کی جنس سے نہ ہو‘ مثلاً : اس کے پاس بکریاں تھیں‘ جن کی اس نے زکاۃ ادا کر دی تھی‘ اب 6، 7 مہینے کے بعد اسے کچھ اونٹ یا گائیں مل گئی ہیں۔ اگر ملنے والا یہ مال اتنی تعداد میں ہے کہ وہ زکاۃ کے نصاب کو پہنچ جاتا ہے تو اس کی زکاۃ اس کا سال الگ پورا ہونے پر ادا کی جائے گی‘ پہلے مال کے ساتھ ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان آخری دونوں صورتوں میں مذکورہ حدیث کا انطباق ہوتا ہے۔ یہاں دونوں صورتوں میں صاحب مال اپنی خوشی سے پہلے مال کے ساتھ ہی ان کی بھی زکاۃ ادا کر دیتا ہے تو بات اور ہے‘ خوشی سے بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا مرغوب اور پسندیدہ ہی ہے‘ تاہم شرعاً ایسا کرنے کا پابند نہیں ہے۔