بلوغ المرام - حدیث 486

كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ الزَّكَاةِ حسن وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((تُؤْخَذُ صَدَقَاتُ الْمُسْلِمِينَ عَلَى مِيَاهِهِمْ)). رَوَاهُ أَحْمَدُ. وَلِأَبِي دَاوُدَ: ((وَلَا تُؤْخَذُ صَدَقَاتُهُمْ إِلَّا فِي دُورِهِمْ)).

ترجمہ - حدیث 486

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل باب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ (شعیب) سے اور وہ اپنے دادا (حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما ) سے روایت کرتے ہیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمانوں سے زکاۃ ان کے پانی پلانے کی جگہوں پر وصول کی جائے گی۔‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا ہے۔) اور ابوداود کی روایت میں ہے: ’’مسلمانوں کے مالوں کی زکاۃ ان کے گھروں ہی میں جا کر حاصل کی جائے ۔‘‘
تشریح : اس حدیث میں عامل زکاۃ کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے لوگوں کے پاس ان کے گھروں اور مویشیوں کی قیام گاہوں میں جانے کا حکم ہے تاکہ کسی قسم کے دھوکے میں مبتلا نہ کیا جا سکے اور وہ اپنی حاکمیت کی دھونس بھی نہ جما سکے بلکہ ایک خادم دین کی حیثیت سے گھر گھر جا کر زکاۃ وصول کرے۔ حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عنقریب تمھارے پاس کچھ ناپسندیدہ لوگ آئیں گے‘ جب وہ تمھارے پاس آئیں تو انھیں خوش آمدید کہنا اور ان کے اور جو وہ لینا چاہیں‘ ان کے درمیان آڑے نہ آنا۔ اگر انھوں نے عدل و انصاف کیا تو اس کا اجر ملے گا اور اگر ظلم کیا تو اس کا وبال اٹھائیں گے۔ تم انھیں راضی رکھنا‘ بلاشبہ تمھاری زکاۃ کی تکمیل انھیں راضی رکھنے میں ہے اور انھیں چاہیے کہ تمھارے لیے دعائے خیر کریں۔‘‘ (سنن أبي داود‘ الزکاۃ‘ باب رضاء المصدق‘ حدیث : ۱۵۸۸)
تخریج : أخرجه أبوداود، الزكاة، باب أين تصدق الأموال، حديث:1591، وأحمد:2 /185. اس حدیث میں عامل زکاۃ کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے لوگوں کے پاس ان کے گھروں اور مویشیوں کی قیام گاہوں میں جانے کا حکم ہے تاکہ کسی قسم کے دھوکے میں مبتلا نہ کیا جا سکے اور وہ اپنی حاکمیت کی دھونس بھی نہ جما سکے بلکہ ایک خادم دین کی حیثیت سے گھر گھر جا کر زکاۃ وصول کرے۔ حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عنقریب تمھارے پاس کچھ ناپسندیدہ لوگ آئیں گے‘ جب وہ تمھارے پاس آئیں تو انھیں خوش آمدید کہنا اور ان کے اور جو وہ لینا چاہیں‘ ان کے درمیان آڑے نہ آنا۔ اگر انھوں نے عدل و انصاف کیا تو اس کا اجر ملے گا اور اگر ظلم کیا تو اس کا وبال اٹھائیں گے۔ تم انھیں راضی رکھنا‘ بلاشبہ تمھاری زکاۃ کی تکمیل انھیں راضی رکھنے میں ہے اور انھیں چاہیے کہ تمھارے لیے دعائے خیر کریں۔‘‘ (سنن أبي داود‘ الزکاۃ‘ باب رضاء المصدق‘ حدیث : ۱۵۸۸)