كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ الزَّكَاةِ ضعيف وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ - رضي الله عنه: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ كُلِّ ثَلَاثِينَ بَقَرَةً تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً، وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً، وَمِنْ كُلِّ حَالِمٍ دِينَارًا أَوْ عَدْلَهُ مُعَافِرَ. رَوَاهُ الْخَمْسَةُ، وَاللَّفْظُ لِأَحْمَدَ، وَحَسَّنَهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَشَارَ إِلَى اِخْتِلَافٍ فِي وَصْلِهِ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ، وَالْحَاكِمُ.
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
باب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یمن کی طرف (عامل مقرر کر کے) بھیجا تو انھیں حکم دیا کہ وہ ہر تیس گایوں میں سے ایک سال کا ایک بچھڑا یا بچھڑی وصول کرے اور ہر چالیس میں سے ایک مسنہ (دو دانت والی گائے یا بیل) وصول کرے۔ اور ہر بالغ مرد سے ایک دینار یا اس کے برابر معافری کپڑا (جزیے کے طور پر) لے۔ (اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ متن کے الفاظ احمد کے ہیں اوراسے ترمذی نے حسن قرار دیا ہے اور اس کے موصول ہونے کے بارے میں اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے‘ نیز اسے ابن حبان اور حاکم دونوں نے صحیح کہا ہے۔)
تشریح :
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے حسن اور بعض نے صحیح قرار دیا ہے اور انھوں نے اس کے شواہد کا تذکرہ بھی کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے۔ اس حدیث کی اسنادی بحث اور مذکورہ مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۷ /۲۱ و۲۳.۳۶ /۳۳۹. ۳۴۱‘ و إرواء الغلیل:۳ /۲۶۸. ۲۷۱‘ رقم:۷۹۵‘ وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشار عواد‘ حدیث:۱۸۰۳‘ ۱۸۰۴) 2. تیس سے کم گائے بیلوں میں زکاۃ واجب نہیں۔ 3.گائے بیلوں کی زکاۃ کا حساب کرنے کے لیے دیکھنا چاہیے کہ ان کے تیس تیس یا چالیس چالیس کے کتنے گروہ بنتے ہیں‘ پھر اس کے مطابق ایک سال یا دو سال کے بچھڑے بچھڑیاں لے لی جائیں‘ یعنی تیس پر ایک سال کا ایک جانور اور چالیس پر دو سال کا ایک جانور واجب ہے۔ اس کے بعد ساٹھ پر ایک ایک سال کے دو جانور‘ ستر پر دو سال کا ایک اور ایک سال کا ایک‘ اسّی پر دو سال کے دو‘ نوے پرایک سال کے تین‘ سو (۱۰۰) پر دو سال کا ایک اور ایک سال کے دو بچھڑے بچھڑیاں بطور زکاۃ ادا اور وصول کیے جائیں گے۔ 4. بھینس عرب کا جانور نہیں‘ اس لیے حدیث میں اس کا ذکر نہیں آیا لیکن اپنے فوائد‘ قدر و قیمت اور شکل و شباہت کے لحاظ سے یہ گائے سے ملتا جلتا ہے‘ اس لیے احتیاط کا تقاضا ہے کہ اسے بھی گائے کے حکم میں سمجھا جائے۔ امام ابن منذر نے اس پر اجماع لکھا ہے کہ بھینسیں بھی گایوں کے حکم میں ہیں۔ دیکھیے: (فتاوٰی ابن تیمیہ:۲۵ /۳۷) بنابریں گائیں اور بھینسیں مل کر نصاب پورا ہوتا ہو تو زکاۃ ادا کر دی جائے۔ 5.زکاۃ میں وہ جانور دیا جائے جس کی تعداد ریوڑ میں زیادہ ہو‘ مثلاً: اگر بیس گائیں اور بھینسیں دس ہیں تو زکاۃ کے طور پر ایک سالہ بچھڑی دی جائے اور اگر دس گائیں اور بیس بھینسیں ہیں تو ایک سالہ کٹڑا یا کٹڑی دی جائے۔واللّٰہ أعلم۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الزكاة، باب في زكاة السائمة، حديث:1576، والترمذي، الزكاة، حديث:623، والنسائي، الزكاة، حديث:2452، وابن ماجه، الزكاة، حديث:1803، وأحمد:5 /230، 233، 247، وابن حبان (الإحسان): 7 /195، حديث:4866، والحاكم:1 /398: الأعمش مدلس وعنعن.
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے حسن اور بعض نے صحیح قرار دیا ہے اور انھوں نے اس کے شواہد کا تذکرہ بھی کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے۔ اس حدیث کی اسنادی بحث اور مذکورہ مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۷ /۲۱ و۲۳.۳۶ /۳۳۹. ۳۴۱‘ و إرواء الغلیل:۳ /۲۶۸. ۲۷۱‘ رقم:۷۹۵‘ وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشار عواد‘ حدیث:۱۸۰۳‘ ۱۸۰۴) 2. تیس سے کم گائے بیلوں میں زکاۃ واجب نہیں۔ 3.گائے بیلوں کی زکاۃ کا حساب کرنے کے لیے دیکھنا چاہیے کہ ان کے تیس تیس یا چالیس چالیس کے کتنے گروہ بنتے ہیں‘ پھر اس کے مطابق ایک سال یا دو سال کے بچھڑے بچھڑیاں لے لی جائیں‘ یعنی تیس پر ایک سال کا ایک جانور اور چالیس پر دو سال کا ایک جانور واجب ہے۔ اس کے بعد ساٹھ پر ایک ایک سال کے دو جانور‘ ستر پر دو سال کا ایک اور ایک سال کا ایک‘ اسّی پر دو سال کے دو‘ نوے پرایک سال کے تین‘ سو (۱۰۰) پر دو سال کا ایک اور ایک سال کے دو بچھڑے بچھڑیاں بطور زکاۃ ادا اور وصول کیے جائیں گے۔ 4. بھینس عرب کا جانور نہیں‘ اس لیے حدیث میں اس کا ذکر نہیں آیا لیکن اپنے فوائد‘ قدر و قیمت اور شکل و شباہت کے لحاظ سے یہ گائے سے ملتا جلتا ہے‘ اس لیے احتیاط کا تقاضا ہے کہ اسے بھی گائے کے حکم میں سمجھا جائے۔ امام ابن منذر نے اس پر اجماع لکھا ہے کہ بھینسیں بھی گایوں کے حکم میں ہیں۔ دیکھیے: (فتاوٰی ابن تیمیہ:۲۵ /۳۷) بنابریں گائیں اور بھینسیں مل کر نصاب پورا ہوتا ہو تو زکاۃ ادا کر دی جائے۔ 5.زکاۃ میں وہ جانور دیا جائے جس کی تعداد ریوڑ میں زیادہ ہو‘ مثلاً: اگر بیس گائیں اور بھینسیں دس ہیں تو زکاۃ کے طور پر ایک سالہ بچھڑی دی جائے اور اگر دس گائیں اور بیس بھینسیں ہیں تو ایک سالہ کٹڑا یا کٹڑی دی جائے۔واللّٰہ أعلم۔