بلوغ المرام - حدیث 484

كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ الزَّكَاةِ صحيح وَعَنْ أَنَسٍ - رضي الله عنه - أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ - رضي الله عنه - كَتَبَ لَهُ - هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَهَا رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - عَلَى الْمُسْلِمِينَ، وَالَّتِي أَمَرَ اللَّهُ بِهَا رَسُولَهُ: ((فِي أَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الْإِبِلِ فَمَا دُونَهَا الْغَنَمُ فِي كُلِّ خَمْسٍ شَاةٌ فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ أُنْثَى فَإِنْ لَمْ تَكُنْ فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٍ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَثَلَاثِينَ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ أُنْثَى، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَأَرْبَعِينَ إِلَى سِتِّينَ فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْجَمَلِ، فَإِذَا بَلَغَتْ وَاحِدَةً وَسِتِّينَ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ فَفِيهَا جَذَعَةٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَسَبْعِينَ إِلَى تِسْعِينَ فَفِيهَا بِنْتَا لَبُونٍ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَتِسْعِينَ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْجَمَلِ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ، وَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ.وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ إِلَّا أَرْبَعٌ مِنَ الْإِبِلِ فَلَيْسَ فِيهَا صَدَقَةٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا.وَفِي صَدَقَةِ الْغَنَمِ سَائِمَتِهَا إِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ إِلَى مِائَتَيْنِ فَفِيهَا شَاتَانِ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى مِائَتَيْنِ إِلَى ثَلَاثمِائَةٍ فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى ثَلَاثِمِائَةٍ فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ، فَإِذَا كَانَتْ سَائِمَةُ الرَّجُلِ نَاقِصَةً مِنْ أَرْبَعِينَ شَاةٍ شَاةً وَاحِدَةً فَلَيْسَ فِيهَا صَدَقَةٌ، إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا.وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ، وَلَا يُخْرَجُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَّدِّقُ، وَفِي الرِّقَةِ رُبُعُ الْعُشْرِ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ إِلَّا تِسْعِينَ وَمِائَةً فَلَيْسَ فِيهَا صَدَقَةٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ مِنَ الْإِبِلِ صَدَقَةُ الْجَذَعَةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ جَذَعَةٌ وَعِنْدَهُ حِقَّةٌ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ الْحِقَّةُ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اِسْتَيْسَرَتَا لَهُ، أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ الْحِقَّةُ، وَعِنْدَهُ الْجَذَعَةُ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ الْجَذَعَةُ، وَيُعْطِيهِ الْمُصَّدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ)). رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

ترجمہ - حدیث 484

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل باب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو فریضۂزکاۃ کے سلسلے میں یہ تحریر لکھ کر دی تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر مقرر فرمایا تھا اور جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دیا تھا: ’’اونٹوں کی چوبیس یا اس سے کم تعداد پر بکریاں ہیں‘ ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکری۔ جب تعداد پچیس سے پینتیس تک ہو جائے تو اس تعداد پر بنت مخاض (ایک سالہ) اونٹنی لازم ہوگی۔ اگر وہ میسر نہ ہو تو پھر ابن لبـون (دو سالہ) نر بچہ واجب ہوگا۔ اور جب چھتیس سے پینتالیس تک تعداد پہنچ جائے تو ان میں بنت لبون (دو سالہ) اونٹنی عائد ہوگی۔ جب چھیالیس سے ساٹھ تک تعداد پہنچ جائے تو ان میں حقـہ (تین سالہ) جفتی کے قابل جوان اونٹنی ذمے پڑے گی۔ جب اکسٹھ سے پچھتر تک پہنچ جائے تو ان میں جذعہ (چار سالہ اونٹنی) لازم ہوگی۔ جب چھہتر سے نوے تک تعداد ہو جائے تو ان میں دو بنت لبون (دو دو سالہ دو اونٹنیاں) پڑیں گی۔ جب اکانوے سے ایک سو بیس تک عدد پہنچ جائے تو ان میں دو حقے (تین تین سالہ دو جوان اونٹنیاں) ادا کرنا ہوں گی جو اونٹ کی جفتی کے قابل ہوں۔ اور جب تعداد ایک سو بیس سے زائد ہو جائے تو پھر ہر چالیس اونٹوں پر بنت لبون (دو سالہ) اور ہر پچاس پر حقـہ (تین سالہ اونٹنی) واجب ہوگی۔ اور جس کے پاس صرف چار ہی اونٹ ہوں تو اس تعداد پر کوئی زکاۃ نہیں الا یہ کہ ان کا مالک چاہے۔ بکریوں کی زکاۃ ‘جو باہر (جنگل و صحرا میں) چرنے جاتی ہوں‘ ان میں چالیس سے لے کر ایک سو بیس تک صرف ایک بکری زکاۃ میں وصول کی جائے گی۔ جب یہ تعداد ایک سو بیس سے بڑھ کر دو سو تک پہنچ جائے تو دو بکریاں زکاۃ میں وصول کی جائیں گی۔ پھر جب دو سو سے بڑھ کر تین سو تک پہنچ جائیں گی تو تین بکریاں وصول کی جائیں گی۔ جب تعداد تین سو سے بڑھ جائے تو ہر سو پر ایک بکری زکاۃ وصول کی جائے گی۔ اگر کسی کی باہر جنگل میں چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک عدد بھی کم ہوں تو مالک پر کوئی زکاۃ نہیں الا یہ کہ مالک چاہے۔ اور زکاۃ کے ڈر سے متفرق (الگ الگ) جانوروں کو اکٹھا نہ کیا جائے اور اکٹھے جانوروں کو الگ الگ نہ کیا جائے۔ اور جو جانور دو آدمیوں کے مشترکہ ہوں تو وہ مشترکہ طور پر (زکاۃ کا حصہ نکالنے کے بعد) آپس میں اپنے اپنے حصے کے مطابق حساب کر لیں۔ زکاۃ میں بوڑھا اور یک چشم (کانا) جانور نہ لیا جائے اور نہ سانڈ ہی لیا جائے الا یہ کہ زکاۃ دینے والا آپ چاہے۔ چاندی (میں زکاۃ) کا نصاب دو سو درہم ہے۔ اس میں سے چالیسواں حصہ زکاۃ ہے۔ اگر کسی کے پاس ایک سو نوے درہم ہوں تو اس پر زکاۃ واجب نہیں الا یہ کہ اس کا مالک خود دینا چاہے۔ اور جس کے اونٹوں کی زکاۃ میں جذعہ (چار سالہ اونٹنی) واجب ہو اور اس کے پاس جذعہ نہ ہو بلکہ حقہ (تین سالہ جوان اونٹنی) ہو تو اس سے حقـہ اور دو بکریاں وصول کی جائیں گی بشرطیکہ بکریاں بآسانی دستیاب ہو سکیں‘ یا بیس درہم وصول کیے جائیں گے۔ اور جس کی زکاۃ میں حقـہ (تین سالہ جوان اونٹنی) آتی ہو لیکن اس کے پاس تین سالہ جوان اونٹنی نہ ہو بلکہ جذعـہ (چارسالہ اونٹنی) ہو تو اس سے وہی جذعـہ (چار سالہ اونٹنی) وصول کر لی جائے گی مگر زکاۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں دے گا۔ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث میں مال مویشی اور چاندی کی زکاۃ کا نصاب مذکور ہے‘ نیز اس میں زکاۃ وصول کرنے کا طریق کار‘ زکاۃ میں وصول کیے جانے والے جانوروں کی عمروں کا بیان اور زکاۃ کی وصولی کا اہتمام مذکور ہے۔ 2.اس حدیث میں یہ بھی حکم ہوا ہے کہ نہ تو مالک کو دھوکا دینے کی کوشش کی جائے اور نہ سرکاری اہل کار ہی کو دھوکے میں رکھنے کی کوشش کی جائے۔ 3. ہر قسم کے مویشیوں پر زکاۃ نہیں بلکہ جنگل میں چرنے چگنے والوں پر ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري، الزكاة، باب زكاة الغنم، حديث:1454. 1. اس حدیث میں مال مویشی اور چاندی کی زکاۃ کا نصاب مذکور ہے‘ نیز اس میں زکاۃ وصول کرنے کا طریق کار‘ زکاۃ میں وصول کیے جانے والے جانوروں کی عمروں کا بیان اور زکاۃ کی وصولی کا اہتمام مذکور ہے۔ 2.اس حدیث میں یہ بھی حکم ہوا ہے کہ نہ تو مالک کو دھوکا دینے کی کوشش کی جائے اور نہ سرکاری اہل کار ہی کو دھوکے میں رکھنے کی کوشش کی جائے۔ 3. ہر قسم کے مویشیوں پر زکاۃ نہیں بلکہ جنگل میں چرنے چگنے والوں پر ہے۔