بلوغ المرام - حدیث 483

كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ الزَّكَاةِ صحيح عَنِ اِبْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - بَعَثَ مُعَاذًا - رضي الله عنه - إِلَى الْيَمَنِ ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَفِيهِ: أَنَّ اللَّهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ، تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ، فَتُرَدُّ فِي (1) فُقَرَائِهِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ.

ترجمہ - حدیث 483

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل باب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ فرمایا۔ پھر ساری حدیث بیان کی‘ جس میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مال داروں سے وصول کی جائے اور انھی کے محتاجوں اور غریبوں میں تقسیم کر دی جائے۔‘‘ (بخاری و مسلم‘ الفاظ بخاری کے ہیں۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد باسعادت سے زکاۃ کی وصولی اور اس کے مصارف کا سرکاری سطح پر انتظام ہوگیا تھا۔ 2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاں سے زکاۃ حاصل کی جائے گی وہیں کے محتاجوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دی جائے گی‘ البتہ اگر مقامی فقراء سے بچ جائے تو پھر دوسرے علاقوں میں زکاۃ منتقل کی جا سکتی ہے۔ 3. زکاۃ ادا کرنا صاحب نصاب لوگوں پر فرض ہے اور مستحق لوگوں تک پہنچانا ان کی ذمہ داری ہے۔ اسے ادا کرنے کے ساتھ کسی پر احسان نہیں ہوتا بلکہ اپنا فرض نبھایا جاتا ہے۔ اور اسی طرح یہ زکاۃ کا مال غرباء کا حق ہے۔ وہ اپنا حق وصول کرتے ہیں‘ کسی کا احسان نہیں اٹھاتے۔ جس طرح کہ نماز اور روزہ ادا کرنا انسان کی ذمہ داری ہے اور اللہ کا حق ہے‘ ان کی ادائیگی سے نماز پڑھنے والا اور روزہ رکھنے والا اللہ پر احسان نہیں کرتا بلکہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اللہ کا حق ادا کرتاہے‘ اسی طرح زکاۃ غرباء کا حق ہے جسے ان تک پہنچانا ہوتا ہے اور یہ ان پر کوئی احسان نہیں ہوتا۔
تخریج : أخرجه البخاري، الزكاة، باب لا تؤخذ كرائم أموال الناس في الصدقة، حديث:1458، ومسلم، الإيمان، باب الدعاء إلى الشهادتين وشرائع الإسلام، حديث:19. 1. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد باسعادت سے زکاۃ کی وصولی اور اس کے مصارف کا سرکاری سطح پر انتظام ہوگیا تھا۔ 2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاں سے زکاۃ حاصل کی جائے گی وہیں کے محتاجوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دی جائے گی‘ البتہ اگر مقامی فقراء سے بچ جائے تو پھر دوسرے علاقوں میں زکاۃ منتقل کی جا سکتی ہے۔ 3. زکاۃ ادا کرنا صاحب نصاب لوگوں پر فرض ہے اور مستحق لوگوں تک پہنچانا ان کی ذمہ داری ہے۔ اسے ادا کرنے کے ساتھ کسی پر احسان نہیں ہوتا بلکہ اپنا فرض نبھایا جاتا ہے۔ اور اسی طرح یہ زکاۃ کا مال غرباء کا حق ہے۔ وہ اپنا حق وصول کرتے ہیں‘ کسی کا احسان نہیں اٹھاتے۔ جس طرح کہ نماز اور روزہ ادا کرنا انسان کی ذمہ داری ہے اور اللہ کا حق ہے‘ ان کی ادائیگی سے نماز پڑھنے والا اور روزہ رکھنے والا اللہ پر احسان نہیں کرتا بلکہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اللہ کا حق ادا کرتاہے‘ اسی طرح زکاۃ غرباء کا حق ہے جسے ان تک پہنچانا ہوتا ہے اور یہ ان پر کوئی احسان نہیں ہوتا۔