كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ صحيح وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا)). رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. وَرَوَى التِّرْمِذِيُّ عَنِ المُغِيرَةِ نَحْوَهُ، لَكِنْ قَالَ: ((فَتُؤْذُوا الْأَحْيَاءَ)).
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے‘ وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مردوں کو برا بھلا نہ کہو‘ اس لیے کہ انھوں نے جو کچھ آگے بھیجا ہے وہ اس تک پہنچ چکے ہیں۔‘‘ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔ اور ترمذی نے حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اسی طرح روایت کیا ہے لیکن اس میں [فَتُؤْذُوا الْأَحْیَائَ] کے الفاظ ہیں‘ یعنی پھر (برا بھلا کہنے سے) تم زندہ لوگوں کو تکلیف پہنچاؤ گے۔‘‘)
تشریح :
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مرنے والوں کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے کیونکہ کسی فوت ہونے والے کا اس انداز سے تذکرہ کرنا‘ بالخصوص مسلمان کا‘ جو اس کے عزیز و اقارب کے لیے اذیت اور تکلیف کا باعث ہو‘ باہمی لڑائی جھگڑے کا باعث بنتا ہے‘ اس لیے شریعت اسلامیہ نے اسے ممنوع قرار دیا ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الجنائز، باب ما ينهى من سب الأموات، حديث:1393، وحديث المغيرة أخرجه الترمذي، البر والصلة، حديث:1982 وهو حديث حسن.
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مرنے والوں کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے کیونکہ کسی فوت ہونے والے کا اس انداز سے تذکرہ کرنا‘ بالخصوص مسلمان کا‘ جو اس کے عزیز و اقارب کے لیے اذیت اور تکلیف کا باعث ہو‘ باہمی لڑائی جھگڑے کا باعث بنتا ہے‘ اس لیے شریعت اسلامیہ نے اسے ممنوع قرار دیا ہے۔