بلوغ المرام - حدیث 481

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ ضعيف وَعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - بِقُبُورِ الْمَدِينَةِ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمْ بِوَجْهِهِ فَقَالَ: ((السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُورِ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ، أَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالْأَثَرِ)). رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ: حَسَنٌ.

ترجمہ - حدیث 481

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر مدینے کے قبرستان سے ہوا۔ آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’اے اہل قبور! تم پر سلامتی ہو۔ اللہ ہماری اور تمھاری مغفرت فرمائے۔ تم ہمارے پیش رو ہو اور ہم تمھارے پیچھے چلے آرہے ہیں۔‘‘ (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے۔)
تشریح : اصحاب القبور کو سلام‘ ایک دعائیہ کلام ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے حضور ان کے لیے سلامتی کی دعا ہوتی ہے‘ مردوں کو سنانا مقصود نہیں ہوتا‘ جس طرح خط لکھتے وقت غائب دوست کو مخاطب کر کے السلام علیکم کہا جاتا ہے‘ اس سے خطاب مقصود نہیں ہوتا بلکہ دعائیہ کلام مقصود ہوتا ہے۔ بعینہٖ اصحاب القبور کو سلام سنانا مقصود نہیں ہوتا اور نہ وہ سنتے ہیں جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا: ﴿وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ﴾ (الفاطر ۳۵:۲۲) یعنی آپ قبروں والوں کو نہیں سنا سکتے۔
تخریج : أخرجه الترمذي، الجنائز، باب ما يقول الرجل إذا دخل المقابر، حديث:1053. * قابوس فيه لين (تقريب). اصحاب القبور کو سلام‘ ایک دعائیہ کلام ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے حضور ان کے لیے سلامتی کی دعا ہوتی ہے‘ مردوں کو سنانا مقصود نہیں ہوتا‘ جس طرح خط لکھتے وقت غائب دوست کو مخاطب کر کے السلام علیکم کہا جاتا ہے‘ اس سے خطاب مقصود نہیں ہوتا بلکہ دعائیہ کلام مقصود ہوتا ہے۔ بعینہٖ اصحاب القبور کو سلام سنانا مقصود نہیں ہوتا اور نہ وہ سنتے ہیں جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا: ﴿وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ﴾ (الفاطر ۳۵:۲۲) یعنی آپ قبروں والوں کو نہیں سنا سکتے۔