كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ حسن وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: لَمَّا جَاءَ نَعْيُ جَعْفَرٍ -حِينَ قُتِلَ- قَالَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - ((اصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا، فَقَدْ أَتَاهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ)). أَخْرَجَهُ الْخَمْسَةُ، إِلَّا النَّسَائِيَّ.
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ انھوں نے فرمایا: جب جعفر (بن ابی طالب) رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر موصول ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان کے پاس وہ چیز آ گئی جس نے انھیں (کھانا پکانے سے) مشغول کر دیا ہے۔‘‘ (اسے نسائی کے علاوہ پانچوں نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن کا کوئی عزیز وفات پا جائے تو انھیں کھانا کھلانا مسنون ہے۔ 2.ہمسائے کا حق سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ہے۔ 3. کھانا صرف میت کے گھر والوں اور ان کے دور سے آئے ہوئے اعزہ و اقرباء کے لیے سنت ہے‘ باقی محلے دار اور تدفین میں شریک لوگ اس کے مستحق نہیں ہیں۔ 4. اہل خانہ کا کھانا پکانا اور ان کے ہاں لوگوں کا جمع ہونا درست نہیں۔ حدیث میں اس کی ممانعت ثابت ہے۔ دیکھیے:(مسند أحمد : ۲ / ۴۰۲‘ و سنن ابن ماجہ‘ الجنائز‘ حدیث : ۱۶۱۲) وضاحت: [حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ] حضرت جعفر رضی اللہ عنہ ،ابوطالب کے بیٹے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے اور ان سے دس برس بڑے تھے۔ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ وہیں قیام پذیر ہوئے۔ نجاشی اور اس کے متبعین نے انھی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا‘ پھر انھوں نے مدینہ کی طرف بھی ہجرت فرمائی اور خیبر میں اس وقت پہنچے جب یہ فتح ہو چکاتھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا: ’’مجھے معلوم نہیں کہ جعفر کی آمد پر مجھے زیادہ مسرت ہے یا خیبر کے فتح ہونے پر۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبراني:۲ / ۱۰۸) بہت ہی زیادہ سخی انسان تھے۔ ۸ ہجری میں موتہ کے معرکے میں جام شہادت نوش کیا اور جنت بریں کو سدھار گئے۔ اس معرکے میں لشکر اسلام کی کمان ان کے ہاتھ میں تھی۔ دونوں بازو جنگ میں بدن سے کٹ کر جدا ہوگئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ان کے دونوں بازوؤں کے بدلے میں ان کے دو پر لگا دیے ہیں جن سے وہ جنت میں جہاں چاہیں پرواز کرتے پھرتے ہیں۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبراني:۲ /۱۰۷) اسی وجہ سے انھیں جعفر طیار کہا جاتا ہے اور جعفر ذوالجناحین بھی انھی کا لقب ہے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الجنائز، باب صفة الطعام لأهل الميت، حديث:3132، والترمذي، الجنائز، حديث:998، وابن ماجه، الجنائز، حديث:1610، وأحمد:1 /205.
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن کا کوئی عزیز وفات پا جائے تو انھیں کھانا کھلانا مسنون ہے۔ 2.ہمسائے کا حق سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ہے۔ 3. کھانا صرف میت کے گھر والوں اور ان کے دور سے آئے ہوئے اعزہ و اقرباء کے لیے سنت ہے‘ باقی محلے دار اور تدفین میں شریک لوگ اس کے مستحق نہیں ہیں۔ 4. اہل خانہ کا کھانا پکانا اور ان کے ہاں لوگوں کا جمع ہونا درست نہیں۔ حدیث میں اس کی ممانعت ثابت ہے۔ دیکھیے:(مسند أحمد : ۲ / ۴۰۲‘ و سنن ابن ماجہ‘ الجنائز‘ حدیث : ۱۶۱۲) وضاحت: [حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ] حضرت جعفر رضی اللہ عنہ ،ابوطالب کے بیٹے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے اور ان سے دس برس بڑے تھے۔ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ وہیں قیام پذیر ہوئے۔ نجاشی اور اس کے متبعین نے انھی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا‘ پھر انھوں نے مدینہ کی طرف بھی ہجرت فرمائی اور خیبر میں اس وقت پہنچے جب یہ فتح ہو چکاتھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا: ’’مجھے معلوم نہیں کہ جعفر کی آمد پر مجھے زیادہ مسرت ہے یا خیبر کے فتح ہونے پر۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبراني:۲ / ۱۰۸) بہت ہی زیادہ سخی انسان تھے۔ ۸ ہجری میں موتہ کے معرکے میں جام شہادت نوش کیا اور جنت بریں کو سدھار گئے۔ اس معرکے میں لشکر اسلام کی کمان ان کے ہاتھ میں تھی۔ دونوں بازو جنگ میں بدن سے کٹ کر جدا ہوگئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ان کے دونوں بازوؤں کے بدلے میں ان کے دو پر لگا دیے ہیں جن سے وہ جنت میں جہاں چاہیں پرواز کرتے پھرتے ہیں۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبراني:۲ /۱۰۷) اسی وجہ سے انھیں جعفر طیار کہا جاتا ہے اور جعفر ذوالجناحین بھی انھی کا لقب ہے۔