كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ صحيح وَعَنْ عُمَرَ - رضي الله عنه - عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم -[قَالَ]: ((الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَلَهُمَا: نَحْوُهُ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ رضي الله عنه.
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مرنے والے کو اس پر نوحہ کیے جانے کے سبب سے اس کی قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم‘ نیز ان دونوں نے مغیرہ بن شعبہ کے واسطے سے بھی اسی طرح روایت بیان کی ہے۔)
تشریح :
اس حدیث میں ایک اشکال ہے کہ اس طرح تو کسی دوسرے کے رونے کی وجہ سے مرنے والے کے لیے عذاب ثابت ہو رہا ہے‘ حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی﴾ (بني إسرائیل ۱۷:۱۵) ’’کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ علمائے کرام نے اس اشکال کے متعدد جواب دیے ہیں‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر نوحہ مرنے والے کا اپناطریقہ بھی تھا اور زندگی میں اس نے اسے برقرار رکھا تو اس صورت میں اسے عذاب ہوگا ورنہ نہیں۔ اور ایک جواب یہ بھی ہے کہ مرنے والے کو عذاب اس صورت میں ہوگا کہ وہ خود اس کی وصیت کر گیا ہو‘ بصورت دیگر اسے عذاب نہیں دیا جائے گا۔ واللّٰہ أعلم۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الجنائز، باب قولالنبي صلى الله عليه وسلم يعذب الميت ببعض بكاء أهله عليه، حديث:1290، ومسلم، الجنائز، باب الميت يعذب ببكاء أهله عليه، حديث:927، وحديث المغيرة أخرجه البخاري، الجنائز، حديث:1291، ومسلم، الجنائز، حديث:933.
اس حدیث میں ایک اشکال ہے کہ اس طرح تو کسی دوسرے کے رونے کی وجہ سے مرنے والے کے لیے عذاب ثابت ہو رہا ہے‘ حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی﴾ (بني إسرائیل ۱۷:۱۵) ’’کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ علمائے کرام نے اس اشکال کے متعدد جواب دیے ہیں‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر نوحہ مرنے والے کا اپناطریقہ بھی تھا اور زندگی میں اس نے اسے برقرار رکھا تو اس صورت میں اسے عذاب ہوگا ورنہ نہیں۔ اور ایک جواب یہ بھی ہے کہ مرنے والے کو عذاب اس صورت میں ہوگا کہ وہ خود اس کی وصیت کر گیا ہو‘ بصورت دیگر اسے عذاب نہیں دیا جائے گا۔ واللّٰہ أعلم۔