كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ ضعيف وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - لَعَنَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ. أَخْرَجَهُ التِّرْمِذِيُّ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ.
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کے لیے جانے والی خواتین پر لعنت کی ہے۔ (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
1. یہ حدیث خواتین کے زیارت قبور کے لیے جانے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ لعنت کسی حرام کام پر کی جاتی ہے‘ اس کے برعکس بہت سی احادیث سے خواتین کا قبروں کی زیارت کے لیے جانا بھی ثابت ہے۔ ان میں تطبیق کی ایک صورت یہ ہے کہ یہ ممانعت زیارت قبور کی اجازت و رخصت سے پہلے کی ہے مگر جب اجازت و رخصت دی گئی تو اس میں مرد و عورت سب شامل ہیں۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ تاحال زیارت قبور کی حرمت خواتین کے لیے برقرار ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں میں صبر کی کمی ہوتی ہے اور جزع فزع‘ آہ و بکا کثرت سے کرتی ہیں۔ اور بعض علماء کا قول ہے کہ خواتین کو زیارت قبور سے اس صورت میں منع کیا گیا ہے جب کہ وہ حرام کام کا ارتکاب کریں جس طرح کہ وہ جاہلیت کے طور طریقے اختیار کرتی ہیں‘ روتی پیٹتی اور بین کرتی ہیں‘ جزع فزع کرتی ہیں اور چیختی چلاتی ہیں۔ یہ امور اسلام کی تعلیم کے منافی ہیں‘ اس لیے ان سے منع کیا گیا ہے۔ 2.اگر زیارت قبور عبرت حاصل کرنے‘ اخروی یاددہانی اور تذکیر کے لیے ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تطبیق کی یہ صورت نہایت شاندار ہے۔ 3.مذکورہ روایت کی بابت ہمارے فاضل محقق لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت تو سنداً ضعیف ہے‘ البتہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی حدیث جس میں زَائِرَاتِ الْقُبُور ِکی بجائے زَوَّارَاتِ القُبُورِکے الفاظ ہیں‘ حسن درجے کی ہے۔ دیکھیے: (سنن أبي داود‘ الجنائز‘ باب في زیارۃ النساء القبور، حدیث:۳۲۳۶‘ و جامع الترمذي‘ الصلاۃ‘ حدیث:۳۲۰) امام شوکانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ صحیح حدیث میں زَوَّارَات کا لفظ ہے جو مبالغے کا صیغہ ہے‘ یعنی عورتوں کے بکثرت قبرستان جانے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی۔ علاوہ ازیں کبھی کبھار زیارت قبور کے لیے جانے کا جواز اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ قبرستان میں جا کر مدفونین کے لیے کس طرح دعا کروں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یہ نہیں فرمایا کہ تم جایا ہی نہ کرو بلکہ فرمایا: ’’یوں کہہ : [اَلسَّلاَمُ عَلٰی أَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ...]‘‘ (صحیح مسلم‘ الجنائز‘ باب مایقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا‘ حدیث: ۷۹۴) شیخ البانی رحمہ اللہ اس مسئلے کی بابت لکھتے ہیں کہ عورتوں کے لیے بھی زیارت قبور ویسے ہی مستحب ہے‘ جیسے مردوں کے لیے‘ پھر مذکورہ روایت کی بابت لکھتے ہیں: زائرات القبور کے الفاظ ضعیف ہیں اور زَوَّارات القبور کے الفاظ صحیح ہیں جن سے عورتوں کے لیے بکثرت قبرستان جانے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (أحکام الجنائز وبدعھا‘ ص:۲۲۹.۲۳۵‘ طبع: مکتبۃ المعارف‘ الریاض)
تخریج :
أخرجه الترمذي، الصلاة، باب ما جاء في كراهية أن يتخذ على القبر مسجدًا، حديث:320 بطوله.* أبو صالح باذام مولى أم هانى ء ضعيف مدلس حدث به بعد اختلاطه، والحديث حسن، بلفظ: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن زوارات القبور، أخرجه الترمذي، الجنائز، حديث:1056 وغيره.
1. یہ حدیث خواتین کے زیارت قبور کے لیے جانے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ لعنت کسی حرام کام پر کی جاتی ہے‘ اس کے برعکس بہت سی احادیث سے خواتین کا قبروں کی زیارت کے لیے جانا بھی ثابت ہے۔ ان میں تطبیق کی ایک صورت یہ ہے کہ یہ ممانعت زیارت قبور کی اجازت و رخصت سے پہلے کی ہے مگر جب اجازت و رخصت دی گئی تو اس میں مرد و عورت سب شامل ہیں۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ تاحال زیارت قبور کی حرمت خواتین کے لیے برقرار ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں میں صبر کی کمی ہوتی ہے اور جزع فزع‘ آہ و بکا کثرت سے کرتی ہیں۔ اور بعض علماء کا قول ہے کہ خواتین کو زیارت قبور سے اس صورت میں منع کیا گیا ہے جب کہ وہ حرام کام کا ارتکاب کریں جس طرح کہ وہ جاہلیت کے طور طریقے اختیار کرتی ہیں‘ روتی پیٹتی اور بین کرتی ہیں‘ جزع فزع کرتی ہیں اور چیختی چلاتی ہیں۔ یہ امور اسلام کی تعلیم کے منافی ہیں‘ اس لیے ان سے منع کیا گیا ہے۔ 2.اگر زیارت قبور عبرت حاصل کرنے‘ اخروی یاددہانی اور تذکیر کے لیے ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تطبیق کی یہ صورت نہایت شاندار ہے۔ 3.مذکورہ روایت کی بابت ہمارے فاضل محقق لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت تو سنداً ضعیف ہے‘ البتہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی حدیث جس میں زَائِرَاتِ الْقُبُور ِکی بجائے زَوَّارَاتِ القُبُورِکے الفاظ ہیں‘ حسن درجے کی ہے۔ دیکھیے: (سنن أبي داود‘ الجنائز‘ باب في زیارۃ النساء القبور، حدیث:۳۲۳۶‘ و جامع الترمذي‘ الصلاۃ‘ حدیث:۳۲۰) امام شوکانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ صحیح حدیث میں زَوَّارَات کا لفظ ہے جو مبالغے کا صیغہ ہے‘ یعنی عورتوں کے بکثرت قبرستان جانے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی۔ علاوہ ازیں کبھی کبھار زیارت قبور کے لیے جانے کا جواز اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ قبرستان میں جا کر مدفونین کے لیے کس طرح دعا کروں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یہ نہیں فرمایا کہ تم جایا ہی نہ کرو بلکہ فرمایا: ’’یوں کہہ : [اَلسَّلاَمُ عَلٰی أَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ...]‘‘ (صحیح مسلم‘ الجنائز‘ باب مایقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا‘ حدیث: ۷۹۴) شیخ البانی رحمہ اللہ اس مسئلے کی بابت لکھتے ہیں کہ عورتوں کے لیے بھی زیارت قبور ویسے ہی مستحب ہے‘ جیسے مردوں کے لیے‘ پھر مذکورہ روایت کی بابت لکھتے ہیں: زائرات القبور کے الفاظ ضعیف ہیں اور زَوَّارات القبور کے الفاظ صحیح ہیں جن سے عورتوں کے لیے بکثرت قبرستان جانے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (أحکام الجنائز وبدعھا‘ ص:۲۲۹.۲۳۵‘ طبع: مکتبۃ المعارف‘ الریاض)