كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ ضعيف وَعَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ أَحَدِ التَّابِعِينَ قَالَ: كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ إِذَا سُوِّيَ عَلَى الْمَيِّتِ قَبْرُهُ، وَانْصَرَفَ النَّاسُ عَنْهُ، أَنْ يُقَالَ عِنْدَ قَبْرِهِ: يَا فُلَانُ! قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. ثَلَاثُ مَرَّاتٍ، يَا فُلَانُ! قُلْ: رَبِّيَ اللَّهُ، وَدِينِيَ الْإِسْلَامُ، وَنَبِيِّ مُحَمَّدٌ - صلى الله عليه وسلم. رَوَاهُ سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ مَوْقُوفًا. وَلِلطَّبَرَانِيِّ نَحْوُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ مَرْفُوعًا مُطَوَّلًا.
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
حضرت ضمرہ بن حبیب رحمہ اللہ ۔جو ایک تابعی ہیں۔ سے مروی ہے کہ لوگ مستحب سمجھتے تھے کہ جب میت کی قبر برابر اور ہموار کر دی جائے اور لوگ جانے لگیں تو قبر کے پاس کھڑے ہو کر میت کو مخاطب ہو کر یوں کہا جائے: اے فلاں! لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہ کہو۔ اسے تین مرتبہ کہے۔ اے فلاں!کہو: [رَبِّيَ اللّٰہُ وَ دِینِيَ الإِْسْلاَمُ وَنَبِیِّـي مُحَمَّدٌ] ’’میرا رب اللہ ہے‘ میرا دین اسلام ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے نبی ہیں۔‘‘ (اسے سعید بن منصور نے موقوف بیان کیا ہے اور طبرانی نے بھی ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے بالکل اسی طرح لمبی مرفوع حدیث بیان کی ہے۔)
تشریح :
میت کو دفن کرنے کے بعد میت کو مخاطب کر کے تلقین کرنا کسی بھی صحیح یا حسن درجے کی روایت سے ثابت نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اہل شام کے علاوہ میں نے کسی اور کو یہ عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت ضمرہ بن حبیب رحمہ اللہ ]ان کی کنیت ابوعتبہ ہے۔ ضمرہ میں ’’ضاد‘‘ پر فتحہ اور ’’میم‘‘ ساکن ہے۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: ضمرہ بن حبیب بن صہیب زبیدی۔ زبیدی کی ’’زا‘‘ پر ضمہ ہے۔ حمص کے رہنے والے تھے‘ اس لیے حمصی کہلائے۔ ثقہ تابعی ہیں اور چوتھے طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔
تخریج :
أخرجه سعيد بن منصور. *فيه أشياخ من أهل حمص، وهم مجهولون، وحديث أبي أمامة، أخرجه الطبراني في الكبير:8 /298، وحديث:7979 وسنده ضعيف، فيه جماعة لم يعرفهم الهيثمي كما في مجمع الزوائد:2 /324، وقال الحافظ في التلخيص الحبير:2 /135، 136، حديث:796، "وإسناده صالح، وقد قواه الضياء، في أحكامه. وفي السند: محمد بن إبراهيم بن العلاء الحمصي، قال الحافظ في تقريب التهذيب:((منكر الحديث)).
میت کو دفن کرنے کے بعد میت کو مخاطب کر کے تلقین کرنا کسی بھی صحیح یا حسن درجے کی روایت سے ثابت نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ اہل شام کے علاوہ میں نے کسی اور کو یہ عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت ضمرہ بن حبیب رحمہ اللہ ]ان کی کنیت ابوعتبہ ہے۔ ضمرہ میں ’’ضاد‘‘ پر فتحہ اور ’’میم‘‘ ساکن ہے۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: ضمرہ بن حبیب بن صہیب زبیدی۔ زبیدی کی ’’زا‘‘ پر ضمہ ہے۔ حمص کے رہنے والے تھے‘ اس لیے حمصی کہلائے۔ ثقہ تابعی ہیں اور چوتھے طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔