بلوغ المرام - حدیث 469

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ ضعيف جدًا وَعَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ - رضي الله عنه: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - صَلَّى عَلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ، وَأَتَى الْقَبْرَ، فَحَثَى عَلَيْهِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ، وَهُوَ قَائِمٌ. رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيُّ.

ترجمہ - حدیث 469

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھی اور ان کی قبر پر تشریف لائے اور کھڑے کھڑے تین لپ مٹی ڈالی۔ (اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور دیگر محققین کے نزدیک بھی مذکورہ روایت ضعیف ہے‘ تاہم مذکورہ روایت میں بیان کردہ مسئلے کی تائید دیگر صحیح احادیث سے ہوتی ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کا جنازہ پڑھا‘ پھر اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس کے سر کی طرف سے اس پر (مٹی کی) تین لپیں ڈالیں۔ (سنن ابن ماجہ‘ الجنائز‘ باب ما جاء في حثو التراب في القبر‘ حدیث:۱۵۶۵) لہٰذا جنازہ پڑھنے والا اگر دفن تک رکے تو اسے چاہیے کہ قبر پر کم از کم تین لپیں مٹی ڈالے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ میت کو دفنانے کے بعد قبر پر تین لپیں مٹی ڈالنا مذکورہ روایت‘ یعنی حضرت ابوہریرہ کی حدیث کی رو سے مستحب ہے لیکن وہ روایت جس میں پہلی لپ کے بعد مِنْھَا خَلَقْنَاکُمْ اور دوسری کے بعد وَفِیھَا نُعِیْدُکُمْ اور تیسری لپ کے بعد وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی پڑھنے کا ذکر ہے‘ وہ محققین کے نزدیک ضعیف ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے‘ لہٰذا اس بحث اور دلائل کی رو سے کوئی کلمہ اور لفظ ادا کیے بغیر تین لپیں مٹی ڈالنا مستحب عمل ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (أحکام الجنائز و بدعھا للألباني‘ ص:۱۹۴‘ طبع مکتبۃ المعارف‘ الریاض‘ و إرواء الغلیل‘ رقم:۷۵۱) وضاحت: [عثمان بنـ مظعون رضی اللہ عنہ ] جمحی قرشی ہیں ۔ آپ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ بڑے عابد و زاہد صحابی تھے۔ جاہلیت ہی کے زمانے میں انھوں نے اپنے اوپر شراب کو حرام قرار دے لیا تھا۔ ۱۳ آدمیوں کے بعد اسلام قبول کیا۔ دونوں ہجرتیں کیں۔ غزوۂ بدر میں حاضر ہوئے۔ مدینہ طیبہ میں ہجرت کے تیسویں ماہ یعنی شعبان میں وفات پائی۔ مہاجرین میں سب سے پہلے یہی فوت ہوئے۔ آپ بقیع قبرستان میں دفن ہوئے۔
تخریج : أخرجه الدار قطني:2 /76. *فيه عاصم بن عبيدالله، والقاسم بن عبدالله العمري متروك. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور دیگر محققین کے نزدیک بھی مذکورہ روایت ضعیف ہے‘ تاہم مذکورہ روایت میں بیان کردہ مسئلے کی تائید دیگر صحیح احادیث سے ہوتی ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کا جنازہ پڑھا‘ پھر اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس کے سر کی طرف سے اس پر (مٹی کی) تین لپیں ڈالیں۔ (سنن ابن ماجہ‘ الجنائز‘ باب ما جاء في حثو التراب في القبر‘ حدیث:۱۵۶۵) لہٰذا جنازہ پڑھنے والا اگر دفن تک رکے تو اسے چاہیے کہ قبر پر کم از کم تین لپیں مٹی ڈالے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ میت کو دفنانے کے بعد قبر پر تین لپیں مٹی ڈالنا مذکورہ روایت‘ یعنی حضرت ابوہریرہ کی حدیث کی رو سے مستحب ہے لیکن وہ روایت جس میں پہلی لپ کے بعد مِنْھَا خَلَقْنَاکُمْ اور دوسری کے بعد وَفِیھَا نُعِیْدُکُمْ اور تیسری لپ کے بعد وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی پڑھنے کا ذکر ہے‘ وہ محققین کے نزدیک ضعیف ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے‘ لہٰذا اس بحث اور دلائل کی رو سے کوئی کلمہ اور لفظ ادا کیے بغیر تین لپیں مٹی ڈالنا مستحب عمل ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (أحکام الجنائز و بدعھا للألباني‘ ص:۱۹۴‘ طبع مکتبۃ المعارف‘ الریاض‘ و إرواء الغلیل‘ رقم:۷۵۱) وضاحت: [عثمان بنـ مظعون رضی اللہ عنہ ] جمحی قرشی ہیں ۔ آپ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ بڑے عابد و زاہد صحابی تھے۔ جاہلیت ہی کے زمانے میں انھوں نے اپنے اوپر شراب کو حرام قرار دے لیا تھا۔ ۱۳ آدمیوں کے بعد اسلام قبول کیا۔ دونوں ہجرتیں کیں۔ غزوۂ بدر میں حاضر ہوئے۔ مدینہ طیبہ میں ہجرت کے تیسویں ماہ یعنی شعبان میں وفات پائی۔ مہاجرین میں سب سے پہلے یہی فوت ہوئے۔ آپ بقیع قبرستان میں دفن ہوئے۔