كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ حسن وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا; أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِهِ حَيًّا)). رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ بِإِسْنَادٍ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ. وَزَادَ ابْنُ مَاجَهْ مِنْ حَدِيثِ أُمِّ سَلَمَةَ: ((فِي الْإِثْمِ)).
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میت کی ہڈی توڑنا ایسے ہی ہے جیسے زندہ انسان کی ہڈی توڑنا۔‘‘ (اسے ابوداود نے مسلم کی شرط والی سند سے روایت کیا ہے۔ اور ابن ماجہ نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں اتنا اضافہ نقل کیا ہے: ’’گناہ میں۔‘‘)
تشریح :
دین اسلام نے جس طرح انسان کی زندگی میں اس کے ساتھ بدسلوکی اور بے حرمتی کو ممنوع قرار دیا ہے اسی طرح اس کے فوت ہو جانے کے بعد بھی اس کی عزت و تکریم اور حرمت کو برقرار رکھا ہے۔ موجودہ دور میں پوسٹ مارٹم کے نام سے مردہ انسان کی چیر پھاڑ کا کام غیر شرعی ہے۔ انتہائی شدید شرعی مصلحت کے بغیر اس پر عمل کرنا ناجائز ہے۔ سعودی علمائے کرام نے اس مسئلے کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے: 1.کسی فوجداری دعویٰ کی تحقیق کی غرض سے پوسٹ مارٹم۔ 2. وبائی امراض کی تحقیق کی غرض سے پوسٹ مارٹم۔3.تعلیم و تعلم‘ یعنی اعلیٰ تعلیمی مقاصد کے لیے پوسٹ مارٹم۔ پہلی اور دوسری صورت میں پوسٹ مارٹم جائز ہے کیونکہ ان صورتوں میں امن و امان اور معاشرے کو وبائی امراض سے بچانے کی بہت سی مصلحتیں کار فرما ہیں اور اس میں اس میت کی بے حرمتی کا جو پہلو ہے‘ جس کا پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہو‘ وہ ان یقینی اور بہت سی مصلحتوں کے مقابلے میں چھپ جاتا ہے۔ باقی رہی تیسری قسم‘ یعنی تعلیمی مقاصد کے لیے پوسٹ مارٹم‘ تو شریعت اسلامیہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ مصالح کو زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جائے اور مفاسد کو کم سے کم کیا جائے‘ خواہ اس کے لیے دو ضرر رساں چیزوں میں سے اس کا ارتکاب کرنا پڑے جس کا ضرر کم ہو‘ اور اسے ختم کیا جا سکے جس کا نقصان زیادہ ہو‘ اور جب مصالح میں تعارض ہو تو اسے اختیار کر لیا جائے گا جو راجح ہو‘ حیوانی لاشوں کا پوسٹ مارٹم انسانی لاشوں کے پوسٹ مارٹم کا بدل نہیں ہو سکتا‘ اور پوسٹ مارٹم میں چونکہ بہت سی مصلحتیں ہیں جو آج کی علمی ترقی کے باعث طبی مقاصد کے لیے بہت کارآمد ہیں‘ لہٰذا انسانی لاش کا پوسٹ مارٹم جائز ہے۔ لیکن شریعت نے چونکہ مسلمان کو موت کے بعد بھی اسی طرح عزت و تکریم سے نوازا ہے جس طرح زندگی میں اسے عزت و شرف سے سرفراز کیا ہے جیسا کہ مذکورہ روایت میں ہے‘ اور پوسٹ مارٹم چونکہ عزت و تکریم کے منافی ہے اور اس میں انسانی لاش کی بے حرمتی ہے‘ اور پوسٹ مارٹم کی ضرورت چونکہ غیر معصوم‘ یعنی مرتد اور حربی لوگوں کی لاشوں کے آسانی سے میسر آ جانے کی وجہ سے پوری ہو جاتی ہے‘ لہٰذا اس مقصد کے لیے غیر معصوم‘ یعنی مرتد اور حربی لوگوں کی لاشوں کو استعمال کرنے پر اکتفا کیا جائے اور ان کے علاوہ دیگر لاشوں کو استعمال نہ کیا جائے۔ واللّٰہ أعلم۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: فتاویٰ اسلامیہ (اُردو) : ۲ / ۹۷‘ ۹۸ مطبوعہ دارالسلام‘ لاہور۔) سنن ابن ماجہ میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی اضافے کی بابت ہمارے فاضل محقق لکھتے ہیں کہ یہ اضافہ سنداً ضعیف ہے۔ اور شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ اضافہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے بلکہ کسی راوی کی تفسیر اور وضاحت ہے‘ تاہم مذکورہ حدیث مومن میت کی ہڈی توڑنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (أحکام الجنائز و بدعھا للألباني‘ ص:۲۹۵‘ ۲۹۶‘ طبع مکتبۃ المعارف‘ الریاض‘ وإرواء الغلیل‘ رقم : ۷۶۳)
تخریج :
أخرجه أبوداود، الجنائز، باب في الحفَّار يجد العظم هل يتنكب ذلك المكان؟ حديث:3207، وحديث أم سلمة أخرجه ابن ماجه، حديث:1617 وسنده ضعيف، فيه عبدالله بن زياد مجهول (تقريب).
دین اسلام نے جس طرح انسان کی زندگی میں اس کے ساتھ بدسلوکی اور بے حرمتی کو ممنوع قرار دیا ہے اسی طرح اس کے فوت ہو جانے کے بعد بھی اس کی عزت و تکریم اور حرمت کو برقرار رکھا ہے۔ موجودہ دور میں پوسٹ مارٹم کے نام سے مردہ انسان کی چیر پھاڑ کا کام غیر شرعی ہے۔ انتہائی شدید شرعی مصلحت کے بغیر اس پر عمل کرنا ناجائز ہے۔ سعودی علمائے کرام نے اس مسئلے کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے: 1.کسی فوجداری دعویٰ کی تحقیق کی غرض سے پوسٹ مارٹم۔ 2. وبائی امراض کی تحقیق کی غرض سے پوسٹ مارٹم۔3.تعلیم و تعلم‘ یعنی اعلیٰ تعلیمی مقاصد کے لیے پوسٹ مارٹم۔ پہلی اور دوسری صورت میں پوسٹ مارٹم جائز ہے کیونکہ ان صورتوں میں امن و امان اور معاشرے کو وبائی امراض سے بچانے کی بہت سی مصلحتیں کار فرما ہیں اور اس میں اس میت کی بے حرمتی کا جو پہلو ہے‘ جس کا پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہو‘ وہ ان یقینی اور بہت سی مصلحتوں کے مقابلے میں چھپ جاتا ہے۔ باقی رہی تیسری قسم‘ یعنی تعلیمی مقاصد کے لیے پوسٹ مارٹم‘ تو شریعت اسلامیہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ مصالح کو زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جائے اور مفاسد کو کم سے کم کیا جائے‘ خواہ اس کے لیے دو ضرر رساں چیزوں میں سے اس کا ارتکاب کرنا پڑے جس کا ضرر کم ہو‘ اور اسے ختم کیا جا سکے جس کا نقصان زیادہ ہو‘ اور جب مصالح میں تعارض ہو تو اسے اختیار کر لیا جائے گا جو راجح ہو‘ حیوانی لاشوں کا پوسٹ مارٹم انسانی لاشوں کے پوسٹ مارٹم کا بدل نہیں ہو سکتا‘ اور پوسٹ مارٹم میں چونکہ بہت سی مصلحتیں ہیں جو آج کی علمی ترقی کے باعث طبی مقاصد کے لیے بہت کارآمد ہیں‘ لہٰذا انسانی لاش کا پوسٹ مارٹم جائز ہے۔ لیکن شریعت نے چونکہ مسلمان کو موت کے بعد بھی اسی طرح عزت و تکریم سے نوازا ہے جس طرح زندگی میں اسے عزت و شرف سے سرفراز کیا ہے جیسا کہ مذکورہ روایت میں ہے‘ اور پوسٹ مارٹم چونکہ عزت و تکریم کے منافی ہے اور اس میں انسانی لاش کی بے حرمتی ہے‘ اور پوسٹ مارٹم کی ضرورت چونکہ غیر معصوم‘ یعنی مرتد اور حربی لوگوں کی لاشوں کے آسانی سے میسر آ جانے کی وجہ سے پوری ہو جاتی ہے‘ لہٰذا اس مقصد کے لیے غیر معصوم‘ یعنی مرتد اور حربی لوگوں کی لاشوں کو استعمال کرنے پر اکتفا کیا جائے اور ان کے علاوہ دیگر لاشوں کو استعمال نہ کیا جائے۔ واللّٰہ أعلم۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: فتاویٰ اسلامیہ (اُردو) : ۲ / ۹۷‘ ۹۸ مطبوعہ دارالسلام‘ لاہور۔) سنن ابن ماجہ میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی اضافے کی بابت ہمارے فاضل محقق لکھتے ہیں کہ یہ اضافہ سنداً ضعیف ہے۔ اور شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ اضافہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے بلکہ کسی راوی کی تفسیر اور وضاحت ہے‘ تاہم مذکورہ حدیث مومن میت کی ہڈی توڑنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (أحکام الجنائز و بدعھا للألباني‘ ص:۲۹۵‘ ۲۹۶‘ طبع مکتبۃ المعارف‘ الریاض‘ وإرواء الغلیل‘ رقم : ۷۶۳)