بلوغ المرام - حدیث 463

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ صحبح وَعَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: نُهِينَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ، وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

ترجمہ - حدیث 463

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمیں جنازوں میں شرکت سے منع کیا گیا لیکن پختہ حکم نہیں دیا گیا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح : 1. یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے لیکن مرفوع کے حکم میں ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں اس بات کی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا۔ (صحیح البخاري‘ الحیض‘ حدیث: ۳۱۳) 2.اس حدیث سے خواتین کی جنازوں میں شرکت ممنوع معلوم ہوتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ پہلے خواتین کو جنازوں میں شریک ہونے اور قبرستان میں جانے سے منع فرما دیا گیا ہو کیونکہ ان میں بے صبری زیادہ ہوتی ہے مگر جب ان میں اسلامی شعور کافی حد تک بیدار ہوگیا تو جس طرح آپ نے قبرستان جانے کی اجازت دے دی اسی طرح جنازے میں شرکت کی بھی اجازت دے دی ہو‘ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے پیغام بھیجا کہ جنازہ مسجد میں لایا جائے تاکہ وہ بھی نماز جنازہ میں شریک ہو سکیں‘ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ جنازہ امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے حجروں کے پاس رکھا گیا تاکہ وہ جنازہ پڑھ لیں‘ پھر اسے مقاعد کی طرف باب الجنائز سے نکال کر قبرستان میں لے جایا گیا۔ (بعد میں) انھیں معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں نے اس عمل پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں جنازہ مسجد میں نہیں لے جایا جاتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا: لوگوں کو جس بات کا علم نہیں ہوتا‘ اس پر کتنی جلدی تنقید کرنے لگتے ہیں‘ ہم پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ جنازہ مسجد میں لے جایا گیا‘ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء کا جنازہ مسجد ہی کے اندر ادا کیا تھا۔ (صحیح مسلم‘ الجنائز‘ باب الصلاۃ علی الجنازۃ في المسجد‘ حدیث:۹۷۳) 3.اس حدیث سے درج ذیل دو مسئلے ثابت ہوئے: ایک تو یہ کہ عورت بھی نماز جنازہ میں شرکت کر سکتی ہے‘ اور دوسرا یہ کہ مسجد کے اندر بھی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري، الجنازة، باب اتباع النساء الجنازة، حديث:1278، ومسلم، الجنائز، باب نهي النساء عن اتباع الجنائز، حديث:938. 1. یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے لیکن مرفوع کے حکم میں ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں اس بات کی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا۔ (صحیح البخاري‘ الحیض‘ حدیث: ۳۱۳) 2.اس حدیث سے خواتین کی جنازوں میں شرکت ممنوع معلوم ہوتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ پہلے خواتین کو جنازوں میں شریک ہونے اور قبرستان میں جانے سے منع فرما دیا گیا ہو کیونکہ ان میں بے صبری زیادہ ہوتی ہے مگر جب ان میں اسلامی شعور کافی حد تک بیدار ہوگیا تو جس طرح آپ نے قبرستان جانے کی اجازت دے دی اسی طرح جنازے میں شرکت کی بھی اجازت دے دی ہو‘ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے پیغام بھیجا کہ جنازہ مسجد میں لایا جائے تاکہ وہ بھی نماز جنازہ میں شریک ہو سکیں‘ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ جنازہ امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے حجروں کے پاس رکھا گیا تاکہ وہ جنازہ پڑھ لیں‘ پھر اسے مقاعد کی طرف باب الجنائز سے نکال کر قبرستان میں لے جایا گیا۔ (بعد میں) انھیں معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں نے اس عمل پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں جنازہ مسجد میں نہیں لے جایا جاتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا: لوگوں کو جس بات کا علم نہیں ہوتا‘ اس پر کتنی جلدی تنقید کرنے لگتے ہیں‘ ہم پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ جنازہ مسجد میں لے جایا گیا‘ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء کا جنازہ مسجد ہی کے اندر ادا کیا تھا۔ (صحیح مسلم‘ الجنائز‘ باب الصلاۃ علی الجنازۃ في المسجد‘ حدیث:۹۷۳) 3.اس حدیث سے درج ذیل دو مسئلے ثابت ہوئے: ایک تو یہ کہ عورت بھی نماز جنازہ میں شرکت کر سکتی ہے‘ اور دوسرا یہ کہ مسجد کے اندر بھی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔