بلوغ المرام - حدیث 46

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْوُضُوءِ حسن وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((لَا وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ)). أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ، وَابْنُ مَاجَهْ، بِإِسْنَادٍ ضَعِيفٍ.وَلِلترْمِذِيِّ: عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ.وَأَبِي سَعِيدٍ نَحْوُهُ. قَالَ أَحْمَدُ: لَا يَثْبُتُ فِيهِ شَيْءٌ.

ترجمہ - حدیث 46

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: وضو کے احکام ومسائل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ وضو کا آغاز کرتے وقت جس نے بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضو نہیں۔‘‘ (اس حدیث کو احمد‘ ابوداود اور ابن ماجہ نے ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اور ترمذی نے اس حدیث کو سعید بن زید اور ابوسعید رضی اللہ عنہما سے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں۔)
تشریح : 1. [لاَ وُضُوئَ] یہ عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بِسْمِ اللّٰہ کا پڑھنا وضو کے لیے رکن یا شرط ہے کیونکہ ظاہر عبارت سے کمال کی نفی نہیں بلکہ صحت اور وجود کی نفی مراد ہے جیسا کہ لائے نفی جنس سے یہی مراد ہوتا ہے۔ لیکن امام احمد رحمہ اللہ اس کی بابت فرماتے ہیں کہ اس کے متعلق کوئی چیز ثابت نہیں‘ البتہ اس کے مختلف طرق اور کثیر شواہد کی بنا پر حافظ ابن صلاح‘ ابن کثیر اور علامہ عراقی رحمہما اللہ وغیرہ نے اسے حسن کہا ہے۔ عصر حاضر کے عظیم محقق علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے‘ لہٰذا اسے پڑھنا سنت ہے‘ اس لیے ہر وضو کرنے والے کو وضو کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھ لینی چاہیے۔ 2. ائمۂ ثلاثہ کے نزدیک وضو کے آغاز میں بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے۔ داود ظاہری کے نزدیک وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا واجب ہے۔ اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ جس نے عمداً بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضو نہیں ہوا اور یہی بات راجح ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ ] سعید بن زید بن عمرو بن نفیل العدوی القرشی ہیں ۔ ان کی کنیت ابوالاعور ہے۔ ان دس خوش قسمت ترین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں جنھیں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ یہ قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ ان کی زوجیت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دائرہ اسلام میں آنے کا ذریعہ اور سبب یہی خاوند بیوی بنے۔ معرکہ ٔبدر کے علاوہ باقی تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ ۵۱ ہجری میں وفات پائی اور بقیع کے قبرستان میں دفن ہوئے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الطهارة، باب في التسمية على الوضوء، حديث:101، وأحمد:2 / 418، وابن ماجه، الطهارة، حديث: 399، وسند ابن ماجه، حديث: 397 حسن وبه حسنت الحديث، والترمذي، الطهارة، حديث:25، 26 وهو حديث ثابت والحمد لله. 1. [لاَ وُضُوئَ] یہ عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بِسْمِ اللّٰہ کا پڑھنا وضو کے لیے رکن یا شرط ہے کیونکہ ظاہر عبارت سے کمال کی نفی نہیں بلکہ صحت اور وجود کی نفی مراد ہے جیسا کہ لائے نفی جنس سے یہی مراد ہوتا ہے۔ لیکن امام احمد رحمہ اللہ اس کی بابت فرماتے ہیں کہ اس کے متعلق کوئی چیز ثابت نہیں‘ البتہ اس کے مختلف طرق اور کثیر شواہد کی بنا پر حافظ ابن صلاح‘ ابن کثیر اور علامہ عراقی رحمہما اللہ وغیرہ نے اسے حسن کہا ہے۔ عصر حاضر کے عظیم محقق علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے‘ لہٰذا اسے پڑھنا سنت ہے‘ اس لیے ہر وضو کرنے والے کو وضو کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھ لینی چاہیے۔ 2. ائمۂ ثلاثہ کے نزدیک وضو کے آغاز میں بسم اللہ پڑھنا مسنون ہے۔ داود ظاہری کے نزدیک وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا واجب ہے۔ اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ جس نے عمداً بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضو نہیں ہوا اور یہی بات راجح ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ ] سعید بن زید بن عمرو بن نفیل العدوی القرشی ہیں ۔ ان کی کنیت ابوالاعور ہے۔ ان دس خوش قسمت ترین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں جنھیں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ یہ قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ ان کی زوجیت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دائرہ اسلام میں آنے کا ذریعہ اور سبب یہی خاوند بیوی بنے۔ معرکہ ٔبدر کے علاوہ باقی تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ ۵۱ ہجری میں وفات پائی اور بقیع کے قبرستان میں دفن ہوئے۔