بلوغ المرام - حدیث 457

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ صحيح وَعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ - رضي الله عنه - قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - عَلَى جَنَازَةٍ، فَحَفِظْتُ مِنْ دُعَائِهِ: ((اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ، وَاعْفُ عَنْهُ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ، وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ، وَقِهِ فِتْنَةَ الْقَبْرِ وَعَذَابَ النَّارِ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

ترجمہ - حدیث 457

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز جنازہ پڑھائی تو میں نے آپ کی دعا میں سے اتنا حصہ یاد کر لیا: [اَللّٰھُمَّ! … وَعَذَابَ النَّارِ] ’’اے اللہ! اس کی مغفرت فرما اور اس پر رحم فرما۔ اور اسے عافیت دے اور اس سے درگزر فرما۔ اس کی مہمان نوازی اچھی فرما۔ اس کی قبر کشادہ و فراخ کر دے۔ اسے پانی‘ برف اور اولوں سے دھو دے (بالکل صاف کر دے۔) اسے گناہوں سے ایسا صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اور اسے اس (دنیاوی) گھر سے بہتر و عمدہ گھر اور اہل و عیال سے بہتر اہل و عیال عطا فرما۔ اسے جنت میں داخل فرما۔ اسے قبر کے فتنہ و آزمائش اور عذاب دوزخ سے محفوظ رکھ۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ دعا بھی بلند آواز سے پڑھی تھی‘ تبھی تو حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے اسے یاد کر لیا تھا۔ سنن ابن ماجہ وغیرہ میں تو صراحتاً منقول ہے کہ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: [شَھِدْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلّٰی عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْأَنْصَارِ فَسَمِعْتُہُ…] ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایک انصاری کا جنازہ پڑھایا۔ میں نے سنا کہ آپ فرما رہے تھے…‘‘ (سنن ابن ماجہ‘ الجنائز‘ باب ماجاء في الدعاء في الصلاۃ علی الجنازۃ‘ حدیث:۱۵۰۰) 2.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ بآواز بلند پڑھائی تھی‘ اس لیے مذکورہ حدیث اور دیگر دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز جنازہ سراً اور جہراً دونوں طرح پڑھانا جائز ہے جبکہ بعض علماء اس کی بابت یوں فرماتے ہیں کہ دعا میں چونکہ افضل یہ ہے کہ آہستہ مانگی جائے‘ اس لیے اکثر فقہاء نے آہستہ پڑھنے کو راجح قرار دیا ہے اور اکثر احادیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے‘ البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرح بطور تعلیم اونچی آواز سے پڑھا جائے تو اس میں اعتراض کی گنجائش نہیں۔ واللّٰہ أعلم۔ راوئ حدیث: [حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ ] شرف صحابیت سے مشرف ہیں۔ قبیلۂ اشجع سے تعلق کی وجہ سے اشجعی کہلائے۔ غزوۂ خیبر میں پہلی مرتبہ شریک جہاد ہوئے۔ فتح مکہ کے روز قبیلۂ اشجع کا علم ان کے ہاتھ میں تھا۔ شام میں سکونت اختیار کی۔ ۷۳ ہجری میں وہیں فوت ہوئے۔
تخریج : أخرجه مسلم، الجنائز، باب الدعاء اللميت في الصلاة، حديث:963. 1. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ دعا بھی بلند آواز سے پڑھی تھی‘ تبھی تو حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے اسے یاد کر لیا تھا۔ سنن ابن ماجہ وغیرہ میں تو صراحتاً منقول ہے کہ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: [شَھِدْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلّٰی عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْأَنْصَارِ فَسَمِعْتُہُ…] ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایک انصاری کا جنازہ پڑھایا۔ میں نے سنا کہ آپ فرما رہے تھے…‘‘ (سنن ابن ماجہ‘ الجنائز‘ باب ماجاء في الدعاء في الصلاۃ علی الجنازۃ‘ حدیث:۱۵۰۰) 2.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ بآواز بلند پڑھائی تھی‘ اس لیے مذکورہ حدیث اور دیگر دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز جنازہ سراً اور جہراً دونوں طرح پڑھانا جائز ہے جبکہ بعض علماء اس کی بابت یوں فرماتے ہیں کہ دعا میں چونکہ افضل یہ ہے کہ آہستہ مانگی جائے‘ اس لیے اکثر فقہاء نے آہستہ پڑھنے کو راجح قرار دیا ہے اور اکثر احادیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے‘ البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرح بطور تعلیم اونچی آواز سے پڑھا جائے تو اس میں اعتراض کی گنجائش نہیں۔ واللّٰہ أعلم۔ راوئ حدیث: [حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ ] شرف صحابیت سے مشرف ہیں۔ قبیلۂ اشجع سے تعلق کی وجہ سے اشجعی کہلائے۔ غزوۂ خیبر میں پہلی مرتبہ شریک جہاد ہوئے۔ فتح مکہ کے روز قبیلۂ اشجع کا علم ان کے ہاتھ میں تھا۔ شام میں سکونت اختیار کی۔ ۷۳ ہجری میں وہیں فوت ہوئے۔