بلوغ المرام - حدیث 455

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ ضعيف جدًا وَعَنْ جَابِرٍ - رضي الله عنه - قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يُكَبِّرُ عَلَى جَنَائِزِنَا أَرْبَعًا وَيَقْرَأُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى. رَوَاهُ الشَّافِعِيُّ بِإِسْنَادٍ ضَعِيفٍ.

ترجمہ - حدیث 455

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہا کرتے تھے اور پہلی تکبیر میں سورۂ فاتحہ (بھی) پڑھتے تھے۔ (اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے ضعیف سند سے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. اس روایت کی سند میں محمد بن عبداللہ بن عقیل ضعیف راوی ہے جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتا ہے‘ البتہ اگلی حدیث اس کی مؤید اور شاہد ہے جیسا کہ ہمارے فاضل محقق نے اس طرف تحقیق و تخریج میں اشارہ کیا ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل حجت اور قابل عمل ہے۔ بنابریں اس روایت اور آئندہ آنے والی روایت دونوں سے ثابت ہوا کہ نماز جنازہ کی پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھنا مسنون ہے۔ اب یہ کہنا کہ قراء ت کی نیت سے نہ پڑھے بلکہ صرف دعا کی نیت سے پڑھے‘ محض ایسی تاویل ہے جس کی کوئی شرعی دلیل نہیں۔ 2. سنن نسائی کی ایک روایت میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ ایک اور سورت پڑھنے کا ذکر بھی مروی ہے۔ (سنن النسائي‘ الجنائز‘ باب الدعاء‘ حدیث:۱۹۸۹) 3.امام شافعی اور امام احمد ; کے نزدیک تو سورۂ فاتحہ کا نماز جنازہ میں پڑھنا واجب ہے۔ اور بعض حضرات اس کی مشروعیت کے قائل نہیں۔ مگر اس کی عدم مشروعیت پر کوئی صحیح دلیل نہیں۔
تخریج : أخرجه الشافعي في الأم:1 /270 نحو المعني، وسنده ضعيف جدًا من أجل إبراهيم بن محمد بن أبي يحيى، ولكن الحديث صحيح لأن له شواهد صحيحة في صحيح البخاري، وغيره، انظر الحديث الآتي. 1. اس روایت کی سند میں محمد بن عبداللہ بن عقیل ضعیف راوی ہے جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتا ہے‘ البتہ اگلی حدیث اس کی مؤید اور شاہد ہے جیسا کہ ہمارے فاضل محقق نے اس طرف تحقیق و تخریج میں اشارہ کیا ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل حجت اور قابل عمل ہے۔ بنابریں اس روایت اور آئندہ آنے والی روایت دونوں سے ثابت ہوا کہ نماز جنازہ کی پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھنا مسنون ہے۔ اب یہ کہنا کہ قراء ت کی نیت سے نہ پڑھے بلکہ صرف دعا کی نیت سے پڑھے‘ محض ایسی تاویل ہے جس کی کوئی شرعی دلیل نہیں۔ 2. سنن نسائی کی ایک روایت میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ ایک اور سورت پڑھنے کا ذکر بھی مروی ہے۔ (سنن النسائي‘ الجنائز‘ باب الدعاء‘ حدیث:۱۹۸۹) 3.امام شافعی اور امام احمد ; کے نزدیک تو سورۂ فاتحہ کا نماز جنازہ میں پڑھنا واجب ہے۔ اور بعض حضرات اس کی مشروعیت کے قائل نہیں۔ مگر اس کی عدم مشروعیت پر کوئی صحیح دلیل نہیں۔