كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ صحيح وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: كَانَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ يُكَبِّرُ عَلَى جَنَائِزِنَا أَرْبَعًا، وَإِنَّهُ كَبَّرَ عَلَى جَنَازَةٍ خَمْسًا، فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يُكَبِّرُهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْأَرْبَعَةُ.
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہتے تھے۔ (مگر خلاف معمول) ایک مرتبہ انھوں نے پانچ تکبیریں کہیں تو میں نے ان سے دریافت کیا۔ انھوں نے جواب دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی پانچ تکبیریں کہتے تھے۔ (اسے مسلم اور چاروں نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز جنازہ میں چار سے زیادہ تکبیریں بھی جائز ہیں۔ 2.تکبیرات جنازہ چار سے لے کر نو تک مروی ہیں جن کی تفصیل شیخ البانی رحمہ اللہ نے احکام الجنائز میں بیان کی ہے۔ احادیث اور آثار بیان کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ تکبیرات جنازہ چار سے لے کر نو تک نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں‘ ان میں سے جس پر بھی عمل کر لیا جائے جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ تنوع اختیار کیا جائے‘ یعنی کبھی چار‘ کبھی پانچ‘ کبھی چھ… تکبیرات کے ساتھ جنازہ پڑھ لیا جائے‘ جیسے دعائے استفتاح وغیرہ کی بابت ہے کہ ان میں سے کوئی بھی پڑھ لی جائے تو جائز ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک پر التزام کرنا ہو تو پھر چار تکبیرات پر کرنا چاہیے کیونکہ اس کی بابت احادیث کثرت سے مروی ہیں۔ رہی یہ بات کہ صرف چار تکبیرات پر سلف اور خلف کا اجماع ہے‘ درست نہیں‘ لہٰذا راجح یہی ہے کہ نماز جنازہ میں چار سے لے کر نو تک تکبیریں کہی جا سکتی ہیں‘ البتہ اگر ہمیشہ ایک ہی طریقے پر نماز جنازہ پڑھنی ہو تو پھر چار تکبیرات کو کثرت احادیث کی بنا پر ترجیح دینی چاہیے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (أحکام الجنائز و بدعھا للألباني‘ ص: ۱۴۱ . ۱۴۶) رہا تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین کرنا تو اس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث صحیح سند سے مروی نہیں جیسا کہ امام شوکانی‘ امام ابن حزم‘ سید سابق اور محقق عظیم شیخ البانی رحمہم اللہ کا موقف ہے‘ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ صرف پہلی تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کیا جائے کیونکہ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی ثابت ہے۔ دیکھیے: (أحکام الجنائز و بدعھا للألباني‘ ص:۱۴۷‘ طبع مکتبۃ المعارف‘ الریاض‘ والمحلی لابن حزم:۵ /۱۲۸‘ و فقہ السنۃ: ۱ /۲۶۶) البتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق مروی ہے کہ وہ نماز جنازہ کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري‘ تعلیقًا‘ الجنائز‘ باب سنۃ الصلاۃ علی الجنازۃ‘ قبل الحدیث:۱۳۲۲‘ و السنن الکبرٰی للبیھقي:۴ /۴۴) اور حضرت عبداللہ بن عمر کی بابت معروف ہے کہ وہ سنت رسول پر سختی سے عمل کیا کرتے تھے‘ لہٰذا ان کا تکبیرات جنازہ کے ساتھ رفع الیدین کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کرتے دیکھا ہو گا۔ ان سے یہ ممکن نہیں کہ وہ کوئی ایسا عمل کریں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو۔ بنابریں تکبیرات جنازہ کے ساتھ رفع الیدین کرنے کو بدعت نہیں کہنا چاہیے کیونکہ صحابی کے عمل اور قول کو بدعت نہیں کہا جا سکتا‘ نیز اس کی بابت بحث و تکرار بھی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جمہور علماء نے اسے جائز قرار دیا ہے‘ لہٰذا ہمیں راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی تکبیرات جنازہ کے ساتھ رفع الیدین کرتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے اور اگر کوئی نہیں کرتا تو اس کا جواز بھی ہے‘ اس میں بحث و تکرار اور تشدد مناسب نہیں ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتاوٰی الدین الخالص:۷ /۱۷۰. ۱۷۲) راوئ حدیث: [ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ ]انصاری مدنی ہیں۔ پھر کوفہ میں منتقل ہونے کی وجہ سے کوفی کہلائے۔ کبار تابعین میں سے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے ان کا سماع ثابت ہے۔ ان کی کنیت ابوعیسیٰ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اختتام میں ابھی چھ سال باقی تھے جب ان کی پیدائش ہوئی۔ ۸۶ ہجری میں معرکۂ جماجم میں فوت ہوئے اور ایک قول یہ ہے کہ انھوں نے نہر بصرہ میں ڈوب کر شہادت پائی۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الجنائز، باب الصلاة على القبر، حديث:957، وأبوداود، الجنائز، حديث:3197، والترمذي، الجنائز، حديث:1023، والنسائي، الجنائز، حديث:1984، وابن ماجه، الجنائز، حديث:1505.
1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز جنازہ میں چار سے زیادہ تکبیریں بھی جائز ہیں۔ 2.تکبیرات جنازہ چار سے لے کر نو تک مروی ہیں جن کی تفصیل شیخ البانی رحمہ اللہ نے احکام الجنائز میں بیان کی ہے۔ احادیث اور آثار بیان کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ تکبیرات جنازہ چار سے لے کر نو تک نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں‘ ان میں سے جس پر بھی عمل کر لیا جائے جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ تنوع اختیار کیا جائے‘ یعنی کبھی چار‘ کبھی پانچ‘ کبھی چھ… تکبیرات کے ساتھ جنازہ پڑھ لیا جائے‘ جیسے دعائے استفتاح وغیرہ کی بابت ہے کہ ان میں سے کوئی بھی پڑھ لی جائے تو جائز ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک پر التزام کرنا ہو تو پھر چار تکبیرات پر کرنا چاہیے کیونکہ اس کی بابت احادیث کثرت سے مروی ہیں۔ رہی یہ بات کہ صرف چار تکبیرات پر سلف اور خلف کا اجماع ہے‘ درست نہیں‘ لہٰذا راجح یہی ہے کہ نماز جنازہ میں چار سے لے کر نو تک تکبیریں کہی جا سکتی ہیں‘ البتہ اگر ہمیشہ ایک ہی طریقے پر نماز جنازہ پڑھنی ہو تو پھر چار تکبیرات کو کثرت احادیث کی بنا پر ترجیح دینی چاہیے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (أحکام الجنائز و بدعھا للألباني‘ ص: ۱۴۱ . ۱۴۶) رہا تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین کرنا تو اس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث صحیح سند سے مروی نہیں جیسا کہ امام شوکانی‘ امام ابن حزم‘ سید سابق اور محقق عظیم شیخ البانی رحمہم اللہ کا موقف ہے‘ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ صرف پہلی تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کیا جائے کیونکہ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی ثابت ہے۔ دیکھیے: (أحکام الجنائز و بدعھا للألباني‘ ص:۱۴۷‘ طبع مکتبۃ المعارف‘ الریاض‘ والمحلی لابن حزم:۵ /۱۲۸‘ و فقہ السنۃ: ۱ /۲۶۶) البتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق مروی ہے کہ وہ نماز جنازہ کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري‘ تعلیقًا‘ الجنائز‘ باب سنۃ الصلاۃ علی الجنازۃ‘ قبل الحدیث:۱۳۲۲‘ و السنن الکبرٰی للبیھقي:۴ /۴۴) اور حضرت عبداللہ بن عمر کی بابت معروف ہے کہ وہ سنت رسول پر سختی سے عمل کیا کرتے تھے‘ لہٰذا ان کا تکبیرات جنازہ کے ساتھ رفع الیدین کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کرتے دیکھا ہو گا۔ ان سے یہ ممکن نہیں کہ وہ کوئی ایسا عمل کریں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو۔ بنابریں تکبیرات جنازہ کے ساتھ رفع الیدین کرنے کو بدعت نہیں کہنا چاہیے کیونکہ صحابی کے عمل اور قول کو بدعت نہیں کہا جا سکتا‘ نیز اس کی بابت بحث و تکرار بھی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جمہور علماء نے اسے جائز قرار دیا ہے‘ لہٰذا ہمیں راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی تکبیرات جنازہ کے ساتھ رفع الیدین کرتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے اور اگر کوئی نہیں کرتا تو اس کا جواز بھی ہے‘ اس میں بحث و تکرار اور تشدد مناسب نہیں ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتاوٰی الدین الخالص:۷ /۱۷۰. ۱۷۲) راوئ حدیث: [ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ ]انصاری مدنی ہیں۔ پھر کوفہ میں منتقل ہونے کی وجہ سے کوفی کہلائے۔ کبار تابعین میں سے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے ان کا سماع ثابت ہے۔ ان کی کنیت ابوعیسیٰ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اختتام میں ابھی چھ سال باقی تھے جب ان کی پیدائش ہوئی۔ ۸۶ ہجری میں معرکۂ جماجم میں فوت ہوئے اور ایک قول یہ ہے کہ انھوں نے نہر بصرہ میں ڈوب کر شہادت پائی۔