بلوغ المرام - حدیث 452

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ صحيح وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: وَاللَّهِ لَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - عَلَى ابْنَيْ بَيْضَاءَ فِي الْمَسْجِدِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

ترجمہ - حدیث 452

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازہ مسجد میں ادا فرمائی۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث میں ان لوگوں کا رد ہے جو مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ممنوع قرار دیتے ہیں کیونکہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ علاوہ ازیں طبقات ابن سعد میں ہے کہ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا جنازہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد ہی میں پڑھایا تھا۔ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد:۳ /۲۰۶) نیز مسند سعید بن منصور میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفۂ راشد دوم کا جنازہ بھی حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے مسجد ہی میں پڑھایا تھا۔ (المصنف لعبدالرزاق:۳ / ۵۲۶‘ و السنن الکبرٰی للبیھقي:۴ /۵۲) اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد ہی میں پڑھا تھا۔ (المصنف لعبدالرزاق:۳ / ۵۲۶‘ ۵۲۷) اگر ایسا کرنا ناجائز و مکروہ ہوتا تو خلفائے راشدین اس پر عمل نہ کرتے۔ 2.نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل سے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے اس پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے بغیر کسی کراہت کے مسجد میں جنازہ پڑھا جا سکتا ہے‘ البتہ مسجد سے باہر پڑھنا افضل اور بہتر ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ وضاحت: [بیضاء] سہل اور سہیل رضی اللہ عنہما کی والدہ کا لقب ہے۔ ان کا نام دعد بنت جحدم فھریہ ہے۔ اور ان کے خاوند کا نام وہب بن ربیعہ قرشی فہری ہے۔سہل اور سہیل اس کی اولاد تھے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ تو ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے قریش کے اس صحیفے کو پاش پاش کیا تھا جس میں قریش نے بنو ہاشم اور مسلمانوں سے مقاطعہ کی قرارداد پاس کی تھی۔ ایک قول کے مطابق انھوں نے اپنے اسلام کے قبول کا اظہار مکہ ہی میں کر دیا تھا۔ اور ایک قول کے مطابق انھوں نے اپنے اسلام لانے کو چھپائے رکھا۔ اسی حالت میں بدر میں زبردستی حاضر کیے گئے۔ مسلمانوں نے انھیں بھی قیدی بنا لیا مگر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے شہادت دی کہ میں نے انھیں مکہ میں نماز پڑھتے دیکھا ہے تو ان کی شہادت پر آزادی دے دی گئی۔ انھوں نے مدینے میں وفات پائی۔ رہے حضرت سہیل رضی اللہ عنہ تو وہ قدیم الاسلام تھے۔ حبشہ کی ہجرت اور ہجرت مدینہ دونوں میں شریک رہے۔ بدر اور باقی تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ غزوۂ تبوک ۹ ہجری کے بعد مدینہ میں وفات پائی۔ بیضاء کے تین بیٹے مشہور تھے۔ ان دو کے علاوہ تیسرے حضرت صفوان رضی اللہ عنہ تھے جنھوں نے غزوۂ بدر میں جام شہادت نوش کیا۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کافی عرصہ بعد وفات پائی ہے۔
تخریج : أخرجه مسلم، الجنائز، باب الصلاة على الجنازة في المسجد، حديث:973. 1. اس حدیث میں ان لوگوں کا رد ہے جو مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ممنوع قرار دیتے ہیں کیونکہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ علاوہ ازیں طبقات ابن سعد میں ہے کہ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا جنازہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد ہی میں پڑھایا تھا۔ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد:۳ /۲۰۶) نیز مسند سعید بن منصور میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفۂ راشد دوم کا جنازہ بھی حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے مسجد ہی میں پڑھایا تھا۔ (المصنف لعبدالرزاق:۳ / ۵۲۶‘ و السنن الکبرٰی للبیھقي:۴ /۵۲) اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد ہی میں پڑھا تھا۔ (المصنف لعبدالرزاق:۳ / ۵۲۶‘ ۵۲۷) اگر ایسا کرنا ناجائز و مکروہ ہوتا تو خلفائے راشدین اس پر عمل نہ کرتے۔ 2.نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل سے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے اس پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے بغیر کسی کراہت کے مسجد میں جنازہ پڑھا جا سکتا ہے‘ البتہ مسجد سے باہر پڑھنا افضل اور بہتر ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ وضاحت: [بیضاء] سہل اور سہیل رضی اللہ عنہما کی والدہ کا لقب ہے۔ ان کا نام دعد بنت جحدم فھریہ ہے۔ اور ان کے خاوند کا نام وہب بن ربیعہ قرشی فہری ہے۔سہل اور سہیل اس کی اولاد تھے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ تو ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے قریش کے اس صحیفے کو پاش پاش کیا تھا جس میں قریش نے بنو ہاشم اور مسلمانوں سے مقاطعہ کی قرارداد پاس کی تھی۔ ایک قول کے مطابق انھوں نے اپنے اسلام کے قبول کا اظہار مکہ ہی میں کر دیا تھا۔ اور ایک قول کے مطابق انھوں نے اپنے اسلام لانے کو چھپائے رکھا۔ اسی حالت میں بدر میں زبردستی حاضر کیے گئے۔ مسلمانوں نے انھیں بھی قیدی بنا لیا مگر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے شہادت دی کہ میں نے انھیں مکہ میں نماز پڑھتے دیکھا ہے تو ان کی شہادت پر آزادی دے دی گئی۔ انھوں نے مدینے میں وفات پائی۔ رہے حضرت سہیل رضی اللہ عنہ تو وہ قدیم الاسلام تھے۔ حبشہ کی ہجرت اور ہجرت مدینہ دونوں میں شریک رہے۔ بدر اور باقی تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ غزوۂ تبوک ۹ ہجری کے بعد مدینہ میں وفات پائی۔ بیضاء کے تین بیٹے مشہور تھے۔ ان دو کے علاوہ تیسرے حضرت صفوان رضی اللہ عنہ تھے جنھوں نے غزوۂ بدر میں جام شہادت نوش کیا۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کافی عرصہ بعد وفات پائی ہے۔