كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: سَمِعْتُ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ: ((مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوتُ، فَيَقُومُ عَلَى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلًا، لَا يُشْرِكُونَ بِاللَّهِ شَيْئًا، إِلَّا شَفَّعَهُمْ اللَّهُ فِيهِ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ’’جس کسی مسلمان کے جنازے میں ایسے چالیس آدمی شریک ہوں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراتے ہوں تو اللہ تعالیٰ اس (مرنے والے) کے حق میں ان کی شفاعت قبول فرما لیتا ہے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث سے جنازے میں زیادہ افراد کی شرکت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ 2.اس حدیث میں چالیس موحد لوگوں کی شفاعت کا ذکر ہے۔ بعض احادیث میں سو کی تعداد ہے۔ (سنن ابن ماجہ‘ الجنائز‘ حدیث:۱۴۸۸) اور بعض میں تین صفوں کا ذکر ہے۔ (سنن أبی داود‘ الجنائز‘ حدیث: ۳۱۶۶) لیکن یہ روایت ضعیف ہے‘ تاہم بعض حضرات نے مالک بن ہبیرہ کے اثر کو حسن قرار دے کر اس مسئلے کا اثبات کیا ہے جیسا کہ امام شوکانی وغیرہ نے بھی اس حدیث سے تین صفوں کی فضیلت کا اثبات کیا ہے۔ دیکھیے: (نیل الأوطار:۴ /۶۲) 3.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سائلین کے جواب میں موقع محل کے اعتبار سے آپ نے تعداد کا ذکر فرمایا ہے۔ اور بعض علماء اس کی بابت یوں لکھتے ہیں: ممکن ہے پہلے اللہ تعالیٰ نے سو افراد کی دعا سے میت کی مغفرت کا وعدہ فرمایا ہو‘ بعد میں امت محمدیہ پر مزید احسان فرماتے ہوئے چالیس افراد کی دعا کی بشارت دے دی ہو۔واللّٰہ أعلم۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الجنائز، باب من صلى عليه أربعون شفعوا فيه، حديث:948.
1. اس حدیث سے جنازے میں زیادہ افراد کی شرکت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ 2.اس حدیث میں چالیس موحد لوگوں کی شفاعت کا ذکر ہے۔ بعض احادیث میں سو کی تعداد ہے۔ (سنن ابن ماجہ‘ الجنائز‘ حدیث:۱۴۸۸) اور بعض میں تین صفوں کا ذکر ہے۔ (سنن أبی داود‘ الجنائز‘ حدیث: ۳۱۶۶) لیکن یہ روایت ضعیف ہے‘ تاہم بعض حضرات نے مالک بن ہبیرہ کے اثر کو حسن قرار دے کر اس مسئلے کا اثبات کیا ہے جیسا کہ امام شوکانی وغیرہ نے بھی اس حدیث سے تین صفوں کی فضیلت کا اثبات کیا ہے۔ دیکھیے: (نیل الأوطار:۴ /۶۲) 3.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سائلین کے جواب میں موقع محل کے اعتبار سے آپ نے تعداد کا ذکر فرمایا ہے۔ اور بعض علماء اس کی بابت یوں لکھتے ہیں: ممکن ہے پہلے اللہ تعالیٰ نے سو افراد کی دعا سے میت کی مغفرت کا وعدہ فرمایا ہو‘ بعد میں امت محمدیہ پر مزید احسان فرماتے ہوئے چالیس افراد کی دعا کی بشارت دے دی ہو۔واللّٰہ أعلم۔