بلوغ المرام - حدیث 447

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - فِي قِصَّةِ الْمَرْأَةِ الَّتِي كَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ - قَالَ: فَسَأَلَ عَنْهَا النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم -[فَقَالُوا: مَاتَتْ، فَقَالَ: ((أَفَلَا كُنْتُمْ آذَنْتُمُونِي؟)) فَكَأَنَّهُمْ صَغَّرُوا أَمْرَهَا] فَقَالَ: ((دُلُّونِي عَلَى قَبْرِهَا))، فَدَلُّوهُ، فَصَلَّى عَلَيْهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَزَادَ مُسْلِمٌ، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ هَذِهِ الْقُبُورَ مَمْلُوءَةٌ ظُلْمَةً عَلَى أَهْلِهَا، وَإِنَّ اللَّهَ يُنَوِّرُهَا لَهُمْ بِصَلَاتِي عَلَيْهِمْ)).

ترجمہ - حدیث 447

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس عورت کے بارے میں‘ جو مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی‘ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت فرمایا تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ تو فوت ہو چکی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟‘‘ گویا انھوں نے اس کے معاملۂ وفات کو معمولی خیال کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے اس کی قبر بتاؤ۔‘‘ صحابۂ کرام نے آپ کو قبر بتا دی‘ چنانچہ آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم نے اتنا اضافہ نقل کیا ہے کہ پھر آپ نے فرمایا: ’’یہ قبریں اہل قبور کے لیے اندھیروں سے بھری ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ میری نماز سے ان کی قبروں کو ان کے لیے روشن کردیتا ہے۔‘‘
تشریح : اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں۔ 1. دفن کرنے کے بعد میت کی قبر پر بھی نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے‘ گو تدفین سے پہلے بھی اس پر نماز جنازہ پڑھی جا چکی ہو۔ حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ بھی آپ نے ایک ماہ بعد ان کی قبر پر پڑھی تھی کیونکہ ان کی وفات کے وقت آپ مکہ مکرمہ میں تھے۔ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد : ۳ /۶۱۸. ۶۲۰) 2.مرنے والے کی قبر وہی ہے جہاں اسے دفن کیا ہو۔ انھی قبروں کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے کہ ان میں تاریکی ہی تاریکی ہے‘ روشنی نام کی کوئی چیز نہیں۔ 3. مسجد کی صفائی کرنے والے کا مرتبہ اور مقام بہت بلند ہے۔ 4.مسجد کی صفائی مسلمان خاتون بھی کر سکتی ہے۔ 5.مسجد کو صاف ستھرا اور پاک رکھنا ضروری ہے۔ صفائی جھاڑو سے بھی کی جا سکتی ہے اور کپڑے سے بھی۔ 6.نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غریبوں سے محبت کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ آپ کو اپنے کارکن مرد و عورت دونوں سے کس قدر تعلق اور لگاؤ تھا۔
تخریج : أخرجه البخاري، الجنائز، باب كنس المسجد، حديث:458، ومسلم، الجنائز، باب الصلاة على القبر، حديث:956. اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں۔ 1. دفن کرنے کے بعد میت کی قبر پر بھی نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے‘ گو تدفین سے پہلے بھی اس پر نماز جنازہ پڑھی جا چکی ہو۔ حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ بھی آپ نے ایک ماہ بعد ان کی قبر پر پڑھی تھی کیونکہ ان کی وفات کے وقت آپ مکہ مکرمہ میں تھے۔ (الطبقات الکبرٰی لابن سعد : ۳ /۶۱۸. ۶۲۰) 2.مرنے والے کی قبر وہی ہے جہاں اسے دفن کیا ہو۔ انھی قبروں کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے کہ ان میں تاریکی ہی تاریکی ہے‘ روشنی نام کی کوئی چیز نہیں۔ 3. مسجد کی صفائی کرنے والے کا مرتبہ اور مقام بہت بلند ہے۔ 4.مسجد کی صفائی مسلمان خاتون بھی کر سکتی ہے۔ 5.مسجد کو صاف ستھرا اور پاک رکھنا ضروری ہے۔ صفائی جھاڑو سے بھی کی جا سکتی ہے اور کپڑے سے بھی۔ 6.نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غریبوں سے محبت کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ آپ کو اپنے کارکن مرد و عورت دونوں سے کس قدر تعلق اور لگاؤ تھا۔