كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ ضعيف وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا; أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ لَهَا: ((لَوْ مُتِّ قَبْلِي فَغَسَّلْتُكِ)). الْحَدِيثَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَابْنُ مَاجَهْ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ.
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہو گئی تو میں تمھیں غسل دوں گا۔‘‘ یہ لمبی حدیث ہے۔ (اسے احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور سنن ابن ماجہ کی تحقیق و تخریج میں اس کی بابت مزید لکھا ہے کہ مذکورہ حدیث کے بعض حصوں کے شواہد صحیح بخاری میں ہیں۔ دیکھیے: سنن ابن ماجہ‘ تحقیق و تخریج‘ حدیث : ۱۴۶۵- علاوہ ازیں دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو حسن قرار دیا ہے‘ ان کی تحقیقی بحث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث حسن درجے کی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۴۳ /۸۱‘ ۸۲‘ وإرواء الغلیل‘ حدیث:۷۰۰) بنابریں خاوند اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے اور کفن بھی پہنا سکتا ہے۔ بعض علماء نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص قرار دیا ہے لیکن تخصیص کی کوئی دلیل نہیں‘ بلکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے اس کی عمومیت ثابت ہے جیسا کہ موطا امام مالک اور سنن کبریٰ بیہقی میں مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات پر ان کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس نے انھیں غسل دیا۔ (الموطأ للإمام مالک‘ الجنائز‘ باب غسل المیت‘ و السنن الکبرٰی للبیھقي:۳ /۳۹۷) اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بابت بھی مروی ہے کہ انھوں نے بھی اپنی زوجۂ محترمہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات پر غسل دیا تھا۔ (سنن الدارقطني‘ الجنائز‘ والسنن الکبریٰ للبیھقي:۳ /۳۹۶) اس لیے باقی امت کے لیے بھی یہی حکم ہے‘ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
تخریج :
أخرجه ابن ماجه، الجنائز، باب ما جاء في غسل الرجل امرأته وغسل المرأة زوجها، حديث:1465، وأحمد:6 /228، الزهري مدلس وعنعن.
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور سنن ابن ماجہ کی تحقیق و تخریج میں اس کی بابت مزید لکھا ہے کہ مذکورہ حدیث کے بعض حصوں کے شواہد صحیح بخاری میں ہیں۔ دیکھیے: سنن ابن ماجہ‘ تحقیق و تخریج‘ حدیث : ۱۴۶۵- علاوہ ازیں دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو حسن قرار دیا ہے‘ ان کی تحقیقی بحث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث حسن درجے کی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۴۳ /۸۱‘ ۸۲‘ وإرواء الغلیل‘ حدیث:۷۰۰) بنابریں خاوند اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے اور کفن بھی پہنا سکتا ہے۔ بعض علماء نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص قرار دیا ہے لیکن تخصیص کی کوئی دلیل نہیں‘ بلکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے اس کی عمومیت ثابت ہے جیسا کہ موطا امام مالک اور سنن کبریٰ بیہقی میں مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات پر ان کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس نے انھیں غسل دیا۔ (الموطأ للإمام مالک‘ الجنائز‘ باب غسل المیت‘ و السنن الکبرٰی للبیھقي:۳ /۳۹۷) اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بابت بھی مروی ہے کہ انھوں نے بھی اپنی زوجۂ محترمہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات پر غسل دیا تھا۔ (سنن الدارقطني‘ الجنائز‘ والسنن الکبریٰ للبیھقي:۳ /۳۹۶) اس لیے باقی امت کے لیے بھی یہی حکم ہے‘ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ واللّٰہ أعلم۔