بلوغ المرام - حدیث 438

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا- قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ جَاءَ ابْنُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ: أَعْطِنِي قَمِيصَكَ أُكَفِّنْهُ فِيهِ، فَأَعْطَاهُ [إِيَّاهُ]. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

ترجمہ - حدیث 438

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) فوت ہوا تو اس کا بیٹا (عبداللہ رضی اللہ عنہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے آپ اپنی قمیص عنایت فرما دیں تاکہ میں اس میں اسے کفن دے دوں‘ چنانچہ آپ نے اسے اپنی قمیص عنایت فرما دی۔ (بخاری و مسلم)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کو ضرورت کے وقت قبر میں داخل کرنے کے بعد باہر نکالنا جائز ہے۔ 2. اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں سے محبت و شفقت کتنی تھی‘ اپنے احباب و اصحاب کی خواہش کا کتنا لحاظ رکھتے تھے‘ اس لیے قوم کے راہنما و قائدین حضرات کو بھی اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ وضاحت : [عبداللّٰہ بن أبيّ] جاہلیت میں خزرج کا سردار تھا اور بظاہر اسلام میں داخل ہونے کا دعویٰ کیا لیکن حقیقت میں منافقین کا لیڈر رہا اور رئیس المنافقین کے لقب سے مشہور تھا۔ غزوۂ احد کے موقع پر لشکر کا تہائی حصہ لے کر واپس ہوگیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعۂ افک میں مرکزی کردار اسی کا تھا۔ سورۂ منافقون میں آیت: ﴿لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ﴾ (المنافقون۶۳:۸) اسی کے متعلق ہے‘ یعنی اس نے کہا تھا کہ جب ہم مدینے لوٹ کر جائیں گے تو مدینے کا سب سے باعزت شخص (خود کو مراد لے رہا تھا) وہاں کے ذلیل ترین شخص کو ضرور نکال دے گا۔ اور اس ذلیل شخص سے اس خبیث کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور اس نے کہا تھا کہ ﴿لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا﴾ (المنافقون ۶۳:۷) یعنی ’’تم اللہ کے رسول کے آس پاس رہنے والوں پر خرچ نہ کرو حتی کہ وہ یہاں سے بھاگ جائیں۔‘‘ ذی القعدہ ۹ ہجری میں فوت ہوا۔ أُبَيّ کے ’’ہمزہ‘‘ پر ضمہ اور’’ یا‘‘ پر تشدید ہے۔ سلول اس کی ماں کا نام تھا۔ [اِبْنُـہُ] اس سے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی ابن سلول رضی اللہ عنہ مراد ہیں۔ ان کا شمار عظیم اور صاحب فضل صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہوتا تھا۔ تمام غزوات میں شریک رہے اور جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔ ان کا رویہ اپنے باپ کے بارے میں سب سے زیادہ سخت تھا۔ جب عبداللہ بن ابی نے ﴿ لَئِنْ رَّجَعْنَا… الخ ﴾ کہا تھا تو انھوں نے اپنے باپ کی گردن اڑا دینے کی اجازت طلب کی تھی۔ جاہلیت کے دور میں ان کا نام حباب تھا۔ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبداللہ رکھا۔
تخریج : أخرجه البخاري، الجنائز، باب الكفن في القميص الذي يكف أو لا يكف، حديث:1269، ومسلم، صفات المنافقين، حديث:2774. 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کو ضرورت کے وقت قبر میں داخل کرنے کے بعد باہر نکالنا جائز ہے۔ 2. اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں سے محبت و شفقت کتنی تھی‘ اپنے احباب و اصحاب کی خواہش کا کتنا لحاظ رکھتے تھے‘ اس لیے قوم کے راہنما و قائدین حضرات کو بھی اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ وضاحت : [عبداللّٰہ بن أبيّ] جاہلیت میں خزرج کا سردار تھا اور بظاہر اسلام میں داخل ہونے کا دعویٰ کیا لیکن حقیقت میں منافقین کا لیڈر رہا اور رئیس المنافقین کے لقب سے مشہور تھا۔ غزوۂ احد کے موقع پر لشکر کا تہائی حصہ لے کر واپس ہوگیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعۂ افک میں مرکزی کردار اسی کا تھا۔ سورۂ منافقون میں آیت: ﴿لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ﴾ (المنافقون۶۳:۸) اسی کے متعلق ہے‘ یعنی اس نے کہا تھا کہ جب ہم مدینے لوٹ کر جائیں گے تو مدینے کا سب سے باعزت شخص (خود کو مراد لے رہا تھا) وہاں کے ذلیل ترین شخص کو ضرور نکال دے گا۔ اور اس ذلیل شخص سے اس خبیث کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور اس نے کہا تھا کہ ﴿لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا﴾ (المنافقون ۶۳:۷) یعنی ’’تم اللہ کے رسول کے آس پاس رہنے والوں پر خرچ نہ کرو حتی کہ وہ یہاں سے بھاگ جائیں۔‘‘ ذی القعدہ ۹ ہجری میں فوت ہوا۔ أُبَيّ کے ’’ہمزہ‘‘ پر ضمہ اور’’ یا‘‘ پر تشدید ہے۔ سلول اس کی ماں کا نام تھا۔ [اِبْنُـہُ] اس سے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی ابن سلول رضی اللہ عنہ مراد ہیں۔ ان کا شمار عظیم اور صاحب فضل صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہوتا تھا۔ تمام غزوات میں شریک رہے اور جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔ ان کا رویہ اپنے باپ کے بارے میں سب سے زیادہ سخت تھا۔ جب عبداللہ بن ابی نے ﴿ لَئِنْ رَّجَعْنَا… الخ ﴾ کہا تھا تو انھوں نے اپنے باپ کی گردن اڑا دینے کی اجازت طلب کی تھی۔ جاہلیت کے دور میں ان کا نام حباب تھا۔ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبداللہ رکھا۔