بلوغ المرام - حدیث 433

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ حسن وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ، حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ)). رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالتِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ.

ترجمہ - حدیث 433

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کی روح اس کے قرض کی وجہ سے لٹکی رہتی ہے حتی کہ اس کی طرف سے (قرض) ادا کر دیا جائے۔‘‘ (اسے احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے حسن قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حقوق العباد مرنے والے سے معاف نہیں ہوتے تاوقتیکہ جس کا حق تھا وہ اسے از خود معاف نہ کر دے یا کوئی دوسرا اس کی طرف سے ادا نہ کر دے۔ اسی طرح قرض کا بار اور بوجھ میت کے ذمے رہتا ہے جب تک کہ اس کی طرف سے ادا نہ ہو جائے‘ خواہ کوئی رشتہ دار ادا کرے یا احباب و رفقاء میں سے کوئی شخص یا ریاست اپنے شہری کی حیثیت سے اس کا قرض ادا کر دے۔ اس سے ذرا اس بات کا اندازہ لگائیں کہ یہ مال تو مرنے والے نے مالک کی رضامندی سے واپسی کی نیت سے لیا تھا‘ جب تک اس کی ادائیگی نہیں ہوتی میت اسی قرض سے معلق رہتی ہے اور جن لوگوں نے دوسروں کی کوئی چیز یا مال فریب‘ دھوکے سے یا ڈاکا ڈال کر حاصل کیا ہو گا‘ ان کا کیا حشر ہو گا؟ 2. اگر مرنے والے نے اپنے پیچھے اتنا مال چھوڑا ہو کہ اس سے اس کا قرض ادا ہو سکتا ہو تو وارث سب سے پہلے اس کے مال میں سے قرض کی ادائیگی کے پابند ہیں۔ اگر وہ اتنا مفلس و غریب تھا کہ ترکے میں ادائیگی ٔقرض کے بقدر نہیں چھوڑا تو پھر اسلامی ریاست اس کے قرض ادا کرنے کی پابند ہوگی‘ چنانچہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص مال چھوڑ کر مرے تو وہ مال اس کے وارثوں کا حق ہے اور جو کوئی قرض چھوڑ جائے‘ اس کی ذمہ داری ہم پر ہے۔‘‘ (صحیح البخاري‘ الاستقراض‘ حدیث:۲۳۹۸‘ وصحیح مسلم‘ الفرائض‘ حدیث:۱۶۱۹) اور کبھی یوں فرمایا: ’’اس کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول پر ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ‘ أبواب الفرائض‘ حدیث:۲۷۳۸) اس سے معلوم ہوا کہ قرض کی معافی نہیں کیونکہ یہ حقوق العباد سے متعلق ہے۔
تخریج : أخرجه الترمذي، الجنائز، باب ما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه، حديث:1078، وأحمد:2 /440، 475. 1. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حقوق العباد مرنے والے سے معاف نہیں ہوتے تاوقتیکہ جس کا حق تھا وہ اسے از خود معاف نہ کر دے یا کوئی دوسرا اس کی طرف سے ادا نہ کر دے۔ اسی طرح قرض کا بار اور بوجھ میت کے ذمے رہتا ہے جب تک کہ اس کی طرف سے ادا نہ ہو جائے‘ خواہ کوئی رشتہ دار ادا کرے یا احباب و رفقاء میں سے کوئی شخص یا ریاست اپنے شہری کی حیثیت سے اس کا قرض ادا کر دے۔ اس سے ذرا اس بات کا اندازہ لگائیں کہ یہ مال تو مرنے والے نے مالک کی رضامندی سے واپسی کی نیت سے لیا تھا‘ جب تک اس کی ادائیگی نہیں ہوتی میت اسی قرض سے معلق رہتی ہے اور جن لوگوں نے دوسروں کی کوئی چیز یا مال فریب‘ دھوکے سے یا ڈاکا ڈال کر حاصل کیا ہو گا‘ ان کا کیا حشر ہو گا؟ 2. اگر مرنے والے نے اپنے پیچھے اتنا مال چھوڑا ہو کہ اس سے اس کا قرض ادا ہو سکتا ہو تو وارث سب سے پہلے اس کے مال میں سے قرض کی ادائیگی کے پابند ہیں۔ اگر وہ اتنا مفلس و غریب تھا کہ ترکے میں ادائیگی ٔقرض کے بقدر نہیں چھوڑا تو پھر اسلامی ریاست اس کے قرض ادا کرنے کی پابند ہوگی‘ چنانچہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص مال چھوڑ کر مرے تو وہ مال اس کے وارثوں کا حق ہے اور جو کوئی قرض چھوڑ جائے‘ اس کی ذمہ داری ہم پر ہے۔‘‘ (صحیح البخاري‘ الاستقراض‘ حدیث:۲۳۹۸‘ وصحیح مسلم‘ الفرائض‘ حدیث:۱۶۱۹) اور کبھی یوں فرمایا: ’’اس کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول پر ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ‘ أبواب الفرائض‘ حدیث:۲۷۳۸) اس سے معلوم ہوا کہ قرض کی معافی نہیں کیونکہ یہ حقوق العباد سے متعلق ہے۔