بلوغ المرام - حدیث 430

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ صحيح وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - عَلَى أَبِي سَلَمَةَ - رضي الله عنه - وَقَدْ شُقَّ بَصَرُهُ فَأَغْمَضَهُ، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ الرُّوحَ إِذَا قُبِضَ، اتَّبَعَهُ الْبَصَرُ)) فَضَجَّ نَاسٌ مِنْ أَهْلِهِ، فَقَالَ: ((لَا تَدْعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ إِلَّا بِخَيْرٍ. فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُؤَمِّنُ عَلَى مَا تَقُولُونَ)). ثُمَّ قَالَ: ((اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَبِي سَلَمَةَ، وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِي الْمَهْدِيِّينَ، وَافْسِحْ لَهُ فِي قَبْرِهِ، وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ، وَاخْلُفْهُ فِي عَقِبِهِ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

ترجمہ - حدیث 430

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی موت کے وقت تشریف لائے تو اس وقت ان کی آنکھ کھلی ہوئی تھی۔ آپ نے اسے بند کر دیا اور پھر فرمایا: ’’جب روح قبض کی جاتی ہے تو آنکھ اس کا پیچھا کرتی ہے۔‘‘ (یہ سن کر) گھر کے لوگ گھبراہٹ اور پریشانی سے رونے اور چیخنے لگے تو آپ نے فرمایا: ’’اپنے لیے اچھی اور بہتر دعا کے سوا کچھ نہ کہا کرو کیونکہ جو کچھ تم کہتے ہو اس پر فرشتے آمین کہتے ہیں۔‘‘ پھر آپ نے دعا فرمائی: ’’الٰہی! ابوسلمہ ( رضی اللہ عنہ ) کی مغفرت فرما ‘ ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کا درجہ و مرتبہ بلند فرما ‘ اس کی قبر کشادہ و وسیع فرما‘ اسے منور فرما‘اس کے پیچھے رہنے والوں میں نائب و قائم مقام ہوجا۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرنے والے کی روح جسد خاکی سے جب پرواز کر جائے تو اس کی آنکھیں عموماً کھلی رہ جاتی ہیں‘ انھیں فوراً بند کر دینا چاہیے کیونکہ جسم ٹھنڈا ہونے کے بعد آنکھ کا بند ہونا دشوار ہو جاتا ہے۔ آنکھیں کھلی رہیں تو مردے سے دہشت و وحشت آنے لگتی ہے۔ 2.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرنے والے کے اہل و عیال اور اعزہ و اقرباء کو اس کے پاس ہونا چاہیے تاکہ مرنے سے پہلے اگر وہ کوئی بات یا نصیحت کرے تو اس کے گواہ بن سکیں۔ 3. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرنے والے کے لیے نماز جنازہ سے پہلے مغفرت و بخشش کی دعا کی جا سکتی ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی‘ مگر اس موقع پر ہاتھ اٹھانا اور اجتماعی دعا کرنا ثابت نہیں۔ وضاحت: [حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ ] ان کا نام عبداللہ بن عبدالاسد مخزومی قرشی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ آپ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ دونوں کے رضاعی بھائی ہیں۔ ابولہب کی آزاد کردہ لونڈی ثویبہ نے انھیں اپنا دودھ پلایا۔ اپنی اہلیہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ غزوۂ احد میں زخمی ہوئے۔ زخم پہلے درست ہوگیا مگر پھر خراب ہوگیا اور ۴ ہجری میں جمادی الاولیٰ کی تین تاریخ کو وفات پائی۔ حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو حرم نبوی میں داخل فرما لیا۔
تخریج : أخرجه مسلم، الجنائز، باب في إغماض الميت والدعاء له إذا حضر، حديث:920. 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرنے والے کی روح جسد خاکی سے جب پرواز کر جائے تو اس کی آنکھیں عموماً کھلی رہ جاتی ہیں‘ انھیں فوراً بند کر دینا چاہیے کیونکہ جسم ٹھنڈا ہونے کے بعد آنکھ کا بند ہونا دشوار ہو جاتا ہے۔ آنکھیں کھلی رہیں تو مردے سے دہشت و وحشت آنے لگتی ہے۔ 2.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرنے والے کے اہل و عیال اور اعزہ و اقرباء کو اس کے پاس ہونا چاہیے تاکہ مرنے سے پہلے اگر وہ کوئی بات یا نصیحت کرے تو اس کے گواہ بن سکیں۔ 3. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرنے والے کے لیے نماز جنازہ سے پہلے مغفرت و بخشش کی دعا کی جا سکتی ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی‘ مگر اس موقع پر ہاتھ اٹھانا اور اجتماعی دعا کرنا ثابت نہیں۔ وضاحت: [حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ ] ان کا نام عبداللہ بن عبدالاسد مخزومی قرشی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ آپ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ دونوں کے رضاعی بھائی ہیں۔ ابولہب کی آزاد کردہ لونڈی ثویبہ نے انھیں اپنا دودھ پلایا۔ اپنی اہلیہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ غزوۂ احد میں زخمی ہوئے۔ زخم پہلے درست ہوگیا مگر پھر خراب ہوگیا اور ۴ ہجری میں جمادی الاولیٰ کی تین تاریخ کو وفات پائی۔ حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو حرم نبوی میں داخل فرما لیا۔