بلوغ المرام - حدیث 43

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْوُضُوءِ صحيح وَعَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةٍ - رضي الله عنه: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - تَوَضَّأَ، فَمَسَحَ بِنَاصِيَتِهِ، وَعَلَى الْعِمَامَةِ وَالْخُفَّيْنِ. أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ.

ترجمہ - حدیث 43

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: وضو کے احکام ومسائل حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو اپنی پیشانی کے بالوں‘ پگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ محض پیشانی پر مسح کرنا کافی نہیں۔ 2. پگڑی پر مسح کے جمہور قائل نہیں۔ 3. علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی صرف ننگے سر پر مسح فرما لیتے اور کبھی پگڑی پر اور کبھی پگڑی اور پیشانی سمیت دونوں پر‘ البتہ صرف پیشانی پر مسح کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ 4. یہ حدیث اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ موزوں پر مسح کرنا جائز ہے‘ اسی طرح یہ حدیث اس کا بھی ثبوت ہے کہ پگڑی پر مسح جائز اور درست ہے۔ اس کی دو صورتیں ممکن ہیں: پہلی صورت یہ کہ کچھ مسح سر پر کیا جائے اور کچھ پگڑی پر‘ اس میں اختلاف نہیں ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ صرف پگڑی پر مسح کیا جائے۔ ترمذی میں منقول ایک صحیح حدیث سے یہ بھی ثابت ہے۔ (جامع الترمذي‘ الطہارۃ‘ باب ما جاء في المسح علی العمامۃ‘ حدیث:۱۰۰‘ ۱۰۱) نیز حضرت ابوبکر‘ عمر‘ انس اور کبار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ عمر بن عبدالعزیز‘ حسن بصری‘ مکحول‘ ابوثور‘ امام احمد‘ اوزاعی‘ اسحاق بن راہویہ اور وکیع رحمہم اللہ وغیرہ اس کے قائل ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ باقی ائمہ ٔثلاثہ محض پگڑی پر مسح کو ناکافی سمجھتے ہیں۔ راویٔ حدیث: [حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ] ان کی کنیت ابوعبداللہ یا ابوعیسیٰ ہے۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: مغیرہ بن شعبہ بن مسعود ثقفی۔ مشہور و معروف صحابی ہیں۔ غزوئہ خندق کے ایام میں مسلمان ہوئے اور ہجرت کر کے مدینہ آئے۔ صلح حدیبیہ میں شامل ہوئے‘ یہ ان کا پہلا معرکہ تھا جس میں وہ شریک ہوئے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفے کے گورنر مقرر ہوئے اور ۵۰ہجری میں کوفہ ہی میں وفات پائی۔
تخریج : أخرجه مسلم، الطهارة، باب المسح على الناصية والعمامة، حديث:274. 1. یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ محض پیشانی پر مسح کرنا کافی نہیں۔ 2. پگڑی پر مسح کے جمہور قائل نہیں۔ 3. علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی صرف ننگے سر پر مسح فرما لیتے اور کبھی پگڑی پر اور کبھی پگڑی اور پیشانی سمیت دونوں پر‘ البتہ صرف پیشانی پر مسح کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ 4. یہ حدیث اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ موزوں پر مسح کرنا جائز ہے‘ اسی طرح یہ حدیث اس کا بھی ثبوت ہے کہ پگڑی پر مسح جائز اور درست ہے۔ اس کی دو صورتیں ممکن ہیں: پہلی صورت یہ کہ کچھ مسح سر پر کیا جائے اور کچھ پگڑی پر‘ اس میں اختلاف نہیں ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ صرف پگڑی پر مسح کیا جائے۔ ترمذی میں منقول ایک صحیح حدیث سے یہ بھی ثابت ہے۔ (جامع الترمذي‘ الطہارۃ‘ باب ما جاء في المسح علی العمامۃ‘ حدیث:۱۰۰‘ ۱۰۱) نیز حضرت ابوبکر‘ عمر‘ انس اور کبار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ عمر بن عبدالعزیز‘ حسن بصری‘ مکحول‘ ابوثور‘ امام احمد‘ اوزاعی‘ اسحاق بن راہویہ اور وکیع رحمہم اللہ وغیرہ اس کے قائل ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ باقی ائمہ ٔثلاثہ محض پگڑی پر مسح کو ناکافی سمجھتے ہیں۔ راویٔ حدیث: [حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ] ان کی کنیت ابوعبداللہ یا ابوعیسیٰ ہے۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: مغیرہ بن شعبہ بن مسعود ثقفی۔ مشہور و معروف صحابی ہیں۔ غزوئہ خندق کے ایام میں مسلمان ہوئے اور ہجرت کر کے مدینہ آئے۔ صلح حدیبیہ میں شامل ہوئے‘ یہ ان کا پہلا معرکہ تھا جس میں وہ شریک ہوئے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفے کے گورنر مقرر ہوئے اور ۵۰ہجری میں کوفہ ہی میں وفات پائی۔