بلوغ المرام - حدیث 428

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ صحيح وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَالْأَرْبَعَةُ.

ترجمہ - حدیث 428

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل حضرت ابوسعید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے مرنے والوں کو [لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ]کی تلقین کرو۔‘‘ (اسے مسلم اور چاروں نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : اس حدیث میں صرف لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ کی تلقین کا ذکر ہے‘ اس لیے اسی پر اکتفا بہتر ہے اور حدیث کے ظاہر الفاظ کا تقاضا بھی یہی ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد پورا کلمہ ہے کہ یوں مرنے والا توحید و رسالت دونوں کا اقرار کر لیتا ہے۔ تلقین سے عام طور پر علماء نے یہ مراد لیا ہے کہ قریب الوفات شخص کے پاس لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ پڑھا جائے تاکہ وہ بھی سن کر پڑھ لے۔ علامہ محمد فواد عبدالباقی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کے حاشیے میں یہی لکھا ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم‘ الجنائز‘ باب تلقین الموتی:لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ) جبکہ بعض علماء اس کی بابت فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ میت‘ یعنی جو مر رہا ہو اسے نرمی سے یہ کلمہ یاد دلائیں اور زیادہ اصرار نہ کریں‘ ایسا نہ ہو کہ وہ انکار کر بیٹھے‘ البتہ مولانا عبدالتواب محدث ملتانی‘ علامہ ناصر الدین البانی رحمہما اللہ اور کئی دیگر علمائے محققین کی رائے اس سے مختلف ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ تلقین سے مراد کلمۂتوحید پڑھ کر اسے صرف سنانا ہی نہیں بلکہ اسے کہا جائے کہ وہ بھی پڑھے‘ اور یہ اس لیے کہ لفظ ’’تلقین‘‘ کا اصل مفہوم ہی اس بات کا تقاضا کرتا ہے‘ وہ اس طرح کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی سے اعادہ کرانے کے لیے کوئی بات کہنا‘ سکھانا‘ بتانا اور بالمشافہ سمجھانا‘ اسی کو تلقین کہا جاتا ہے۔ دوسرے یہ بھی کہ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کی عیادت کو تشریف لے گئے تو فرمایا: [یَا خَالِ! قُلْ: لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ] یعنی ’’ماموں جان! لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ کہیے۔‘‘ تفصیل کے لیے دیکھیے: (مسند أحمد:۳ /۱۵۲) اور حدیث کی رو سے یہی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
تخریج : أخرجه مسلم، الجنائز، باب تلقين الموتى لاإله إلا الله، حديث:916، وأبوداود، الجنائز، حديث:3117، والترمذي، الجنائز، حديث:976، والنسائي، الجنائز، حديث:1827، وابن ماجه، الجنائز، حديث:1444، 1445. اس حدیث میں صرف لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ کی تلقین کا ذکر ہے‘ اس لیے اسی پر اکتفا بہتر ہے اور حدیث کے ظاہر الفاظ کا تقاضا بھی یہی ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد پورا کلمہ ہے کہ یوں مرنے والا توحید و رسالت دونوں کا اقرار کر لیتا ہے۔ تلقین سے عام طور پر علماء نے یہ مراد لیا ہے کہ قریب الوفات شخص کے پاس لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ پڑھا جائے تاکہ وہ بھی سن کر پڑھ لے۔ علامہ محمد فواد عبدالباقی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کے حاشیے میں یہی لکھا ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم‘ الجنائز‘ باب تلقین الموتی:لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ) جبکہ بعض علماء اس کی بابت فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ میت‘ یعنی جو مر رہا ہو اسے نرمی سے یہ کلمہ یاد دلائیں اور زیادہ اصرار نہ کریں‘ ایسا نہ ہو کہ وہ انکار کر بیٹھے‘ البتہ مولانا عبدالتواب محدث ملتانی‘ علامہ ناصر الدین البانی رحمہما اللہ اور کئی دیگر علمائے محققین کی رائے اس سے مختلف ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ تلقین سے مراد کلمۂتوحید پڑھ کر اسے صرف سنانا ہی نہیں بلکہ اسے کہا جائے کہ وہ بھی پڑھے‘ اور یہ اس لیے کہ لفظ ’’تلقین‘‘ کا اصل مفہوم ہی اس بات کا تقاضا کرتا ہے‘ وہ اس طرح کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی سے اعادہ کرانے کے لیے کوئی بات کہنا‘ سکھانا‘ بتانا اور بالمشافہ سمجھانا‘ اسی کو تلقین کہا جاتا ہے۔ دوسرے یہ بھی کہ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کی عیادت کو تشریف لے گئے تو فرمایا: [یَا خَالِ! قُلْ: لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ] یعنی ’’ماموں جان! لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ کہیے۔‘‘ تفصیل کے لیے دیکھیے: (مسند أحمد:۳ /۱۵۲) اور حدیث کی رو سے یہی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔