كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَابُ الْجَنَائِزِ صحيح وَعَنْ أَنَسٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ لِضُرٍّ يَنْزِلُ بِهِ، فَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ مُتَمَنِّيًا فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
باب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کسی کو اس مصیبت و تکلیف کی و جہ سے‘ جو اس پر نازل ہوئی ہو‘ موت کی تمنا و خواہش ہرگز ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ اور اگر اس کی تمنا ضروری ہو تو پھر اس طرح کہنا چاہیے: اے اللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لیے خیر کا باعث ہو اور جب موت میرے لیے بہتر ہوتو مجھے وفات دے دے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تشریح :
1. یہ حدیث دنیوی مصائب و آلام اور رشتوں سے تنگ آکر موت کی تمنا و خواہش کرنے کو مکروہ قرار دیتی ہے کیونکہ یہ عدم رضا بالقضا کی خبر دیتی ہے‘ البتہ شہادت فی سبیل اللہ کی خواہش اور دین کے بارے میں فتنے کے اندیشے کی وجہ سے موت کی تمنا کرنا مکروہ و ناپسندیدہ نہیں ہے۔ 2.ایک سچے پکے مومن کے لیے زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ نیک آدمی زندگی کی صورت میں اپنے نیک اعمال اور صالح افعال میں اضافہ ہی کرے گا اور سابقہ گناہوں سے اسے تائب ہونے کا موقع نصیب ہوگا۔ اگر آدمی برا ہے‘ بدکردار اور بداعمال ہے تو اسے موقع غنیمت ملے گا کہ توبہ کر لے اور راہ راست پر گامزن ہو کر اپنی اخروی زندگی سدھار لے‘ اس لیے دنیوی مصائب و آلام‘ مفلسی‘ غربت اور بیماری وغیرہ سے تنگ آکر موت کی آرزو نہ کرے‘ البتہ رب کائنات سے ملاقات کے شوق میں موت کی آرزو کمال ایمان کی نشانی اور علامت ہے۔ 3.اگر دین کے بارے میں کسی فتنے اور آزمائش کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں بھی موت کی تمنا اور آروز کی جا سکتی ہے۔ دنیوی مشکلات و تکالیف تو مومن کو درجات کی بلندیوں پر پہنچانے کا باعث ہیں۔
؎ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
تخریج :
أخرجه البخاري، المرض، باب تمني المريض الموت، حديث:5671، ومسلم، الذكر والدعاء، باب كراهية تمني الموت لضر نزل به، حديث:2680.
1. یہ حدیث دنیوی مصائب و آلام اور رشتوں سے تنگ آکر موت کی تمنا و خواہش کرنے کو مکروہ قرار دیتی ہے کیونکہ یہ عدم رضا بالقضا کی خبر دیتی ہے‘ البتہ شہادت فی سبیل اللہ کی خواہش اور دین کے بارے میں فتنے کے اندیشے کی وجہ سے موت کی تمنا کرنا مکروہ و ناپسندیدہ نہیں ہے۔ 2.ایک سچے پکے مومن کے لیے زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ نیک آدمی زندگی کی صورت میں اپنے نیک اعمال اور صالح افعال میں اضافہ ہی کرے گا اور سابقہ گناہوں سے اسے تائب ہونے کا موقع نصیب ہوگا۔ اگر آدمی برا ہے‘ بدکردار اور بداعمال ہے تو اسے موقع غنیمت ملے گا کہ توبہ کر لے اور راہ راست پر گامزن ہو کر اپنی اخروی زندگی سدھار لے‘ اس لیے دنیوی مصائب و آلام‘ مفلسی‘ غربت اور بیماری وغیرہ سے تنگ آکر موت کی آرزو نہ کرے‘ البتہ رب کائنات سے ملاقات کے شوق میں موت کی آرزو کمال ایمان کی نشانی اور علامت ہے۔ 3.اگر دین کے بارے میں کسی فتنے اور آزمائش کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں بھی موت کی تمنا اور آروز کی جا سکتی ہے۔ دنیوی مشکلات و تکالیف تو مومن کو درجات کی بلندیوں پر پہنچانے کا باعث ہیں۔
؎ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے