كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ الِاسْتِسْقَاءِ حسن وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: شَكَا النَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قُحُوطَ الْمَطَرِ، فَأَمَرَ بِمِنْبَرٍ، فَوُضِعَ لَهُ فِي الْمُصَلَّى، وَوَعَدَ النَّاسَ يَوْمًا يَخْرُجُونَ فِيهِ، فَخَرَجَ حِينَ بَدَا حَاجِبُ الشَّمْسِ، فَقَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَكَبَّرَ وَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّكُمْ شَكَوْتُمْ جَدَبَ دِيَارِكُمْ، وَقَدْ أَمَرَكُمْ اللَّهُ أَنْ تَدْعُوَهُ، وَوَعَدَكُمْ أَنْ يَسْتَجِيبَ لَكُمْ، ثُمَّ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ، اللَّهُمَّ أَنْتَ اللَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْتَ الْغَنِيُّ وَنَحْنُ الْفُقَرَاءُ، أَنْزِلْ عَلَيْنَا الْغَيْثَ، وَاجْعَلْ مَا أَنْزَلْتَ قُوَّةً وَبَلَاغًا إِلَى حِينٍ))، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ، فَلَمْ يَزَلْ حَتَّى رُئِيَ بَيَاضُ إِبِطَيْهِ، ثُمَّ حَوَّلَ إِلَى النَّاسِ ظَهْرَهُ، وَقَلَبَ رِدَاءَهُ، وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ، ثُمَّ أَقْبِلَ عَلَى النَّاسِ وَنَزَلَ، وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَأَنْشَأَ اللَّهُ سَحَابَةً، فَرَعَدَتْ، وَبَرَقَتْ، ثُمَّ أَمْطَرَتْ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَقَالَ: ((غَرِيبٌ، وَإِسْنَادُهُ جَيِّدٌ)). وَقِصَّةُ التَّحْوِيلِ فِي ((الصَّحِيحِ)) مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، وَفِيهِ: فَتَوَجَّهَ إِلَى الْقِبْلَةِ، يَدْعُو، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، جَهَرَ فِيهِمَا بِالْقِرَاءَةِ. وَلِلدَّارَقُطْنِيِّ مِنْ مُرْسَلِ أَبِي جَعْفَرٍ الْبَاقِرِ: وَحَوَّلَ رِدَاءَهُ؛ لِيَتَحَوَّلَ الْقَحْطُ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز استسقا کا بیان
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش بند ہو جانے کی شکایت کی تو آپ نے منبر (لے جانے) کا حکم فرمایا‘ چنانچہ آپ کے لیے عیدگاہ میں منبر لا کر رکھ دیا گیا۔ آپ نے لوگوں سے ایک دن کا وعدہ کیا کہ وہ سارے باہر نکلیں‘ پھر آپ اس وقت نکلے جب سورج کا کنارہ ظاہر ہوا‘ آپ منبر پر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور حمد و ستائش بیان کی‘ پھر (لوگوں سے مخاطب ہو کر) فرمایا: ’’تم نے اپنے علاقوں کی خشک سالی کا شکوہ کیا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے کہ اسے پکارو وہ تمھاری دعا قبول فرمائے گا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو کائنات کا پروردگار ‘ بڑا مہربان‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ روز جزا کا مالک ہے۔ اللہ کے سوا دوسرا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ الٰہی! تو ہی اللہ ہے‘ تیرے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں۔ تو غنی ہے اور ہم فقیر و محتاج ہیں۔ ہم پر باران رحمت کا نزول فرما۔ جو کچھ تو ہم پر نازل فرمائے اسے ہمارے لیے قوت اور ایک وقت تک کے لیے گزران بنا دے۔‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں دست مبارک اوپر اٹھائے کہ وہ بتدریج آہستہ آہستہ اوپر اٹھتے گئے اور آپ دعا میں مشغول رہے یہاں تک کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔ پھر لوگوں کی جانب اپنی پشت کر کے کھڑے ہوگئے (قبلہ رو ہو گئے) اور اپنی چادر کو پلٹایا جبکہ آپ اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے ہوئے تھے‘ بعدازاں لوگوں کی جانب منہ کیا اور منبر سے نیچے تشریف لے آئے اور دو رکعت نماز پڑھائی۔ اسی لمحے اللہ تعالیٰ نے ایک بدلی بھیجی‘ وہ گرجی‘ چمکی‘ پھر برسنے لگی۔ (اسے ابوداود نے روایت کیا ہے اور غریب کہا ہے اور اس کی سند عمدہ ہے۔) صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت میں چادر تبدیل کرنے کا قصہ موجود ہے۔ اور اس روایت میں ہے: پھر آپ نے قبلے کی طرف رخ کیا اور دعا فرماتے رہے‘ پھر دو رکعت نماز ادا فرمائی اور ان میں قراء ت بلند آواز سے کی۔ اور دارقطنی میں ابوجعفر باقر کی مرسل روایت میں ہے کہ آپ نے اپنی چادر اس لیے پلٹی کہ قحط سالی بھی اسی طرح پلٹ جائے۔
تشریح :
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز عید کے برعکس نماز استسقا کے موقع پر منبر باہر لے جانا جائز ہے۔ 2. خطبۂاستسقا نماز سے پہلے پڑھا گیا اور استسقا کے لیے آپ نے دعا میں ہاتھ اتنے اوپر اٹھائے کہ بقول حضرت انس رضی اللہ عنہ میں نے رسول اللہ کو کسی موقع پر اتنے بلند ہاتھ اٹھائے ہوئے نہیں دیکھا۔ (صحیح البخاري‘ المناقب‘ باب صفۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم ‘ حدیث:۳۵۶۵‘ وصحیح مسلم‘ صلاۃ الاستسقاء‘ باب رفع الیدین بالدعاء في الاستسقاء‘ حدیث: ۸۹۶) امام نووی رحمہ اللہ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے بارے میں تیس احادیث جمع کی ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بھی مسنون ہے۔ 3.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خطبے کا آغاز بسم اللہ سے نہیں بلکہ الحمد للہ سے کرنا مسنون ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے لفظ سے آغاز صحیح نہیں۔ سنن دارقطنی کی ابو جعفر باقر والی مرسل روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مستدرک حاکم اور بیہقی میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اس لیے الٹی کہ قحط (خوشحالی میں) بدل جائے۔ اسے امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور امام ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے‘ دیکھیے: (المستدرک للحاکم:۱ / ۳۲۶‘ والسنن الکبرٰی للبیھقي:۳ / ۳۵۱) لہٰذا دارقطنی کی مرسل روایت سے اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ اسے موصولاً روایت کرنے والا راوی ثقہ ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت ابوجعفر باقر رحمہ اللہ ] ابوجعفر ’’باقر‘‘ (قاف کے نیچے کسرہ) کی کنیت ہے۔ نام محمد بن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب ہے۔ امامیہ اثنا عشریہ شیعہ کے عقیدے کے مطابق بارہ ائمہ میں سے ان کا پانچواں نمبر ہے۔ انھیں ’’باقر‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ تبقر کے معنی وسعت علمی کے ہیں اور ان کا علم بڑا وسیع تھا‘ بڑے ماہر و متبحر عالم تھے۔ ۵۶ ہجری میں پیدا ہوئے۔ ۱۱۷ ہجری میں تریسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی اور جنت البقیع کے قبرستان میں دفن کیے گئے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الصلاة، باب رفع اليدين في الاستسقاء، حديث:1173، وقصة التحويل: ذكرها البخاري، الاستسقاء، حديث:1024، ومرسل أبي جعفر أخرجه الدارقطني:2 /66، وسنده ضعيف، حفص بن غياث مدلس وعنعن، والسند مرسل.
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز عید کے برعکس نماز استسقا کے موقع پر منبر باہر لے جانا جائز ہے۔ 2. خطبۂاستسقا نماز سے پہلے پڑھا گیا اور استسقا کے لیے آپ نے دعا میں ہاتھ اتنے اوپر اٹھائے کہ بقول حضرت انس رضی اللہ عنہ میں نے رسول اللہ کو کسی موقع پر اتنے بلند ہاتھ اٹھائے ہوئے نہیں دیکھا۔ (صحیح البخاري‘ المناقب‘ باب صفۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم ‘ حدیث:۳۵۶۵‘ وصحیح مسلم‘ صلاۃ الاستسقاء‘ باب رفع الیدین بالدعاء في الاستسقاء‘ حدیث: ۸۹۶) امام نووی رحمہ اللہ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے بارے میں تیس احادیث جمع کی ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بھی مسنون ہے۔ 3.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خطبے کا آغاز بسم اللہ سے نہیں بلکہ الحمد للہ سے کرنا مسنون ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے لفظ سے آغاز صحیح نہیں۔ سنن دارقطنی کی ابو جعفر باقر والی مرسل روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مستدرک حاکم اور بیہقی میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اس لیے الٹی کہ قحط (خوشحالی میں) بدل جائے۔ اسے امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور امام ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے‘ دیکھیے: (المستدرک للحاکم:۱ / ۳۲۶‘ والسنن الکبرٰی للبیھقي:۳ / ۳۵۱) لہٰذا دارقطنی کی مرسل روایت سے اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ اسے موصولاً روایت کرنے والا راوی ثقہ ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت ابوجعفر باقر رحمہ اللہ ] ابوجعفر ’’باقر‘‘ (قاف کے نیچے کسرہ) کی کنیت ہے۔ نام محمد بن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب ہے۔ امامیہ اثنا عشریہ شیعہ کے عقیدے کے مطابق بارہ ائمہ میں سے ان کا پانچواں نمبر ہے۔ انھیں ’’باقر‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ تبقر کے معنی وسعت علمی کے ہیں اور ان کا علم بڑا وسیع تھا‘ بڑے ماہر و متبحر عالم تھے۔ ۵۶ ہجری میں پیدا ہوئے۔ ۱۱۷ ہجری میں تریسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی اور جنت البقیع کے قبرستان میں دفن کیے گئے۔