بلوغ المرام - حدیث 406

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ الِاسْتِسْقَاءِ حسن عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - مُتَوَاضِعًا، مُتَبَذِّلًا، مُتَخَشِّعًا، مُتَرَسِّلًا، مُتَضَرِّعًا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، كَمَا يُصَلِّي فِي الْعِيدِ، لَمْ يَخْطُبْ خُطْبَتَكُمْ هَذِهِ. رَوَاهُ الْخَمْسَةُ، وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيُّ، وَأَبُو عَوَانَةَ، وَابْنُ حِبَّانَ.

ترجمہ - حدیث 406

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نماز استسقا کا بیان حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تواضع کرتے ہوئے‘ ترک زینت کرتے ہوئے‘ خشوع ظاہر کرتے ہوئے ‘ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اور بڑی زاری اور تضرع کرتے ہوئے نماز کے لیے باہر نکلے اور نماز عید کی طرح لوگوں کو دو رکعات نماز پڑھائی۔ تمھارے اس خطبے کی طرح خطبہ ارشاد نہیں فرمایا۔ (اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور ترمذی‘ ابوعوانہ اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز استسقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ استسقا کے لغوی معنی ہیں: پانی کے لیے درخواست کرنا‘ دعا کرنا۔ شرعی اصطلاح کی رو سے ایک مخصوص کیفیت سے نماز پڑھنا۔ 2. استسقا کی دو قسمیں ممکن ہیں: ادنیٰ اور اعلیٰ۔ ادنیٰ کی صورت یہ ہے کہ صرف دعا کی جائے اور اعلیٰ کی صورت یہ ہے کہ طلب بارش کے لیے باہر نکل کر عجز و انکسار اور خشوع و خضوع کی حالت میں نماز استسقا ادا کی جائے اور خوب عاجزی کے ساتھ گڑگڑا کر دعا کی جائے۔ دعا کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ نماز کے بعد ہاتھوں کی پشت چہرے کی طرف کر کے دعا مانگی جائے۔ (صحیح مسلم‘ صلاۃ الاستسقاء‘ باب رفع الیدین…‘ حدیث:۸۹۶) 3.نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف دعا بھی ثابت ہے جیسا کہ خطبۂجمعہ کے دوران میں ایک آدمی نے آپ سے بارش کے لیے دعا کی درخواست کی تو آپ نے اسی وقت منبر پر کھڑے ہوئے دعا فرمائی جس کے نتیجے میں بارش شروع ہوگئی اور آئندہ جمعے تک مسلسل ہوتی رہی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خطیب خطبے کے دوران میں دعا کر سکتا ہے‘ اس وقت قبلہ رو ہونا بھی ضروری نہیں۔ 4.خطبے کے دوران میں خطیب سے گفتگو ہو سکتی ہے۔ 5.خطیب دوسرے کی درخواست پر عمل کرنے کا مجاز ہے۔ 6.استسقا کی نماز دو رکعت ہے اور اس کا وقت بھی سورج نکلنے کے بعد کا ہے۔ علاوہ ازیں وہ باہر کھلے میدان‘ یعنی عیدگاہ میں ادا کی جاتی ہے‘ اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے ’’عید کی نماز‘‘ سے تشبیہ دی۔ 7.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی وہ روایت جس میں تکبیرات عیدین کی طرح پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیروں کا ذکر ہے‘ محققین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (سنن الدارقطني : ۲ / ۶۷‘ ۶۸) 8.’’تمھارے اس خطبے کی طرح خطبہ ارشاد نہیں فرمایا‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ خطبہ بھی بنیادی طور پر دعا ہی پر مشتمل تھا‘ اسے تمھاری طرح غیر ضروری باتیں کر کے طول نہیں دیا۔ 9.شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب حجۃ اللّٰہ البالغۃ میں لکھا ہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز استسقا ادا کرنے کے کئی طریقے منقول ہیں۔ مسنون طریقہ یہ ہے کہ سارے لوگ شہر سے یا آبادی سے باہر جمع ہوں۔ لباس پھٹا پرانا ہو‘ ڈرتے ہوئے اللہ کے حضور گریہ و زاری کریں۔ اس کے بعد امام انھیں دو رکعت نماز باجماعت پڑھائے اور قراء ت بلند آواز سے کرے۔ اس کے بعد خطبہ پڑھے اور قبلہ رو ہو کر دعا مانگے۔ اس دوران میں چادر کو الٹا کرے۔‘‘ جس کا طریقہ تفصیل کے ساتھ آگے آ رہا ہے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، صلاة الاستسقاء، باب جماع أبواب صلاة الاستسقاء وتفريعها، حديث:1165، والترمذي، الجمعة، حديث:558، والنسائي، الاستسقاء، حديث:1507، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1266، وأحمد:1 /230، 269، 355، وابن حبان(الإحسان):4 /229، حديث:2851، وأبوعوانه:6 /33، القسم المفقود. 1. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز استسقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ استسقا کے لغوی معنی ہیں: پانی کے لیے درخواست کرنا‘ دعا کرنا۔ شرعی اصطلاح کی رو سے ایک مخصوص کیفیت سے نماز پڑھنا۔ 2. استسقا کی دو قسمیں ممکن ہیں: ادنیٰ اور اعلیٰ۔ ادنیٰ کی صورت یہ ہے کہ صرف دعا کی جائے اور اعلیٰ کی صورت یہ ہے کہ طلب بارش کے لیے باہر نکل کر عجز و انکسار اور خشوع و خضوع کی حالت میں نماز استسقا ادا کی جائے اور خوب عاجزی کے ساتھ گڑگڑا کر دعا کی جائے۔ دعا کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ نماز کے بعد ہاتھوں کی پشت چہرے کی طرف کر کے دعا مانگی جائے۔ (صحیح مسلم‘ صلاۃ الاستسقاء‘ باب رفع الیدین…‘ حدیث:۸۹۶) 3.نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف دعا بھی ثابت ہے جیسا کہ خطبۂجمعہ کے دوران میں ایک آدمی نے آپ سے بارش کے لیے دعا کی درخواست کی تو آپ نے اسی وقت منبر پر کھڑے ہوئے دعا فرمائی جس کے نتیجے میں بارش شروع ہوگئی اور آئندہ جمعے تک مسلسل ہوتی رہی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خطیب خطبے کے دوران میں دعا کر سکتا ہے‘ اس وقت قبلہ رو ہونا بھی ضروری نہیں۔ 4.خطبے کے دوران میں خطیب سے گفتگو ہو سکتی ہے۔ 5.خطیب دوسرے کی درخواست پر عمل کرنے کا مجاز ہے۔ 6.استسقا کی نماز دو رکعت ہے اور اس کا وقت بھی سورج نکلنے کے بعد کا ہے۔ علاوہ ازیں وہ باہر کھلے میدان‘ یعنی عیدگاہ میں ادا کی جاتی ہے‘ اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے ’’عید کی نماز‘‘ سے تشبیہ دی۔ 7.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی وہ روایت جس میں تکبیرات عیدین کی طرح پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیروں کا ذکر ہے‘ محققین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (سنن الدارقطني : ۲ / ۶۷‘ ۶۸) 8.’’تمھارے اس خطبے کی طرح خطبہ ارشاد نہیں فرمایا‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ خطبہ بھی بنیادی طور پر دعا ہی پر مشتمل تھا‘ اسے تمھاری طرح غیر ضروری باتیں کر کے طول نہیں دیا۔ 9.شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب حجۃ اللّٰہ البالغۃ میں لکھا ہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز استسقا ادا کرنے کے کئی طریقے منقول ہیں۔ مسنون طریقہ یہ ہے کہ سارے لوگ شہر سے یا آبادی سے باہر جمع ہوں۔ لباس پھٹا پرانا ہو‘ ڈرتے ہوئے اللہ کے حضور گریہ و زاری کریں۔ اس کے بعد امام انھیں دو رکعت نماز باجماعت پڑھائے اور قراء ت بلند آواز سے کرے۔ اس کے بعد خطبہ پڑھے اور قبلہ رو ہو کر دعا مانگے۔ اس دوران میں چادر کو الٹا کرے۔‘‘ جس کا طریقہ تفصیل کے ساتھ آگے آ رہا ہے۔