بلوغ المرام - حدیث 400

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ ضعيف وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه: أَنَّهُمْ أَصَابَهُمْ مَطَرٌ فِي يَوْمِ عِيدٍ. فَصَلَّى بِهِمْ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - صَلَاةَ الْعِيدِ فِي الْمَسْجِدِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ بِإِسْنَادٍ لَيِّنٍ.

ترجمہ - حدیث 400

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نماز عیدین کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک موقع پر عید کے روز بارش ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نماز عید مسجد میں پڑھائی۔ (اسے ابوداود نے کمزور سند سے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود معناً صحیح ہے‘ یعنی مسئلہ اسی طرح ہے کہ نماز عید کھلے میدان میں پڑھنا افضل ہے‘ تاہم معقول شرعی عذر کی وجہ سے مسجد میں نماز عید پڑھی جا سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عموماً نماز عید باہر عیدگاہ میں جا کر ہی پڑھتے تھے۔ باران رحمت کی وجہ سے مسجد میں پڑھائی۔ 2.مسئلے کی نوعیت اپنے مقام پر ہے مگر اس کی سند میں ایک راوی عیسیٰ بن عبدالاعلیٰ بن ابی فروہ مجہول ہے۔ اس وجہ سے یہ روایت باعتبار سند کمزور ہے۔ 3.علماء میں اختلاف ہے کہ نماز عید وسیع و کشادہ مسجد میں پڑھنا افضل ہے یا باہر نکل کر عیدگاہ میں؟ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وسیع و فراخ اور کشادہ مسجد میں پڑھنا افضل ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر نماز عید باہر عیدگاہ میں ادا فرمائی ہے۔ ہاں‘ ایک مرتبہ بارش کی وجہ سے عذر پیش آگیا تو آپ نے نماز عید مسجد میں پڑھائی‘ اس لیے عیدگاہ میں پڑھنا افضل ہے۔ 4. یہ بھی معلوم حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی الوسع ہمیشہ افضل کام پر مداومت و محافظت فرمائی ہے‘ نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ نماز عید کے لیے عیدگاہ تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اگر باہر نکل کر نماز عید پڑھنا مسنون نہ ہوتا تو میں مسجد میں پڑھتا‘ اس لیے عیدگاہ میں نماز پڑھنا ہی مسنون اور افضل ہے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الصلاة، باب يصلى بالناس العيد في المسجد، حديث:1160، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1313.* عيسى بن عبدالأعلى مجهول (تقريب) وشيخه مستور، وله شاهد ضعيف عند البيهقي:3 /310. 1. مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود معناً صحیح ہے‘ یعنی مسئلہ اسی طرح ہے کہ نماز عید کھلے میدان میں پڑھنا افضل ہے‘ تاہم معقول شرعی عذر کی وجہ سے مسجد میں نماز عید پڑھی جا سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عموماً نماز عید باہر عیدگاہ میں جا کر ہی پڑھتے تھے۔ باران رحمت کی وجہ سے مسجد میں پڑھائی۔ 2.مسئلے کی نوعیت اپنے مقام پر ہے مگر اس کی سند میں ایک راوی عیسیٰ بن عبدالاعلیٰ بن ابی فروہ مجہول ہے۔ اس وجہ سے یہ روایت باعتبار سند کمزور ہے۔ 3.علماء میں اختلاف ہے کہ نماز عید وسیع و کشادہ مسجد میں پڑھنا افضل ہے یا باہر نکل کر عیدگاہ میں؟ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وسیع و فراخ اور کشادہ مسجد میں پڑھنا افضل ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر نماز عید باہر عیدگاہ میں ادا فرمائی ہے۔ ہاں‘ ایک مرتبہ بارش کی وجہ سے عذر پیش آگیا تو آپ نے نماز عید مسجد میں پڑھائی‘ اس لیے عیدگاہ میں پڑھنا افضل ہے۔ 4. یہ بھی معلوم حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی الوسع ہمیشہ افضل کام پر مداومت و محافظت فرمائی ہے‘ نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ نماز عید کے لیے عیدگاہ تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اگر باہر نکل کر نماز عید پڑھنا مسنون نہ ہوتا تو میں مسجد میں پڑھتا‘ اس لیے عیدگاہ میں نماز پڑھنا ہی مسنون اور افضل ہے۔