کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْوُضُوءِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ: ((إِنَّ أُمَّتِي يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ غُرًّا مُحَجَّلِينَ، مِنْ أَثَرِ الْوُضُوءِ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يُطِيلَ غُرَّتَهُ فَلْيَفْعَلْ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: وضو کے احکام ومسائل
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’ قیامت کے روز میری امت کے لوگ ایسی حالت میں آئیں گے کہ وضو کے اثرات کی وجہ سے ان کی پیشانیاں اور ہاتھ پاؤں چمکتے ہوں گے، چنانچہ تم میں سے جو شخص اس چمک اور روشنی کو زیادہ بڑھا سکتا ہو تو اسے ضرور ایسا کرنا چاہیے۔‘‘ (بخاری ومسلم- اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔)
تشریح :
1. اس حدیث کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ اعضائے وضو کو حد فرض سے زیادہ تک دھونا‘ مثلاً: ہاتھوں کو کندھوں تک اور پاؤں کو گھٹنوں تک۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوئ حدیث نے یہی مفہوم سمجھا اور اسی پر ان کا اپنا عمل تھا۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمہما اللہ بھی اسے مستحب سمجھتے ہیں، مگر امام مالک رحمہ اللہ اسے مستحب نہیں سمجھتے۔ وہ فرماتے ہیں کہ وضو کی حد متعین ہے اور زیور اپنے مقام پر ہے۔ امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمہما اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ حد فرض سے زیادہ دھونا پسندیدہ امر نہیں۔ دیکھیے: (تیسیر العلام شرح عمدۃ الأحکام:۱ / ۴۶- ۴۸) دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر عضو وضو کو تین تین مرتبہ دھوئے۔ اور تیسرا مفہوم یہ بھی ممکن ہے کہ وضو موجود ہو مگر ثواب کی نیت سے تازہ وضو کرے۔ اور ہر وقت باوضو رہنا بھی مراد ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ دونوں مفہوم ظاہر کے خلاف ہیں۔ 2. اس آخری جملے کے بارے میں راوی کو تردد ہے کہ یہ مرفوع ہے یا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے جیسا کہ مسند احمد اور فتح الباری میں ہے۔ (۱ /۲۳۶‘ حدیث: ۱۳۶) اس لیے اس سے مقررہ حد سے زائد حصے کو دھونے کے استحباب پر استدلال محل نظر ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:(إغاثۃ اللھفان: ۱ /۲۰۰)
تخریج :
أخرجه البخاري، الوضوء، باب فضل الوضوء والغر المحجلون من آثار الوضوء، حديث:136، ومسلم، الطهارة، باب استحباب إطالة الغرة والتحجيل في الوضوء، حديث:264 وسنده صحيح ولا عبرة بمن أعله بالإدراج "فمن استطاع" إلى آخره، لأنه لم يأت بدليل قوي، والأصل عدم الإدراج، وللحديث شواهد، ولو كان من قول أبي هريرة رضي الله عنه فله حكم الرفع، والحمد لله.
1. اس حدیث کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ اعضائے وضو کو حد فرض سے زیادہ تک دھونا‘ مثلاً: ہاتھوں کو کندھوں تک اور پاؤں کو گھٹنوں تک۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوئ حدیث نے یہی مفہوم سمجھا اور اسی پر ان کا اپنا عمل تھا۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمہما اللہ بھی اسے مستحب سمجھتے ہیں، مگر امام مالک رحمہ اللہ اسے مستحب نہیں سمجھتے۔ وہ فرماتے ہیں کہ وضو کی حد متعین ہے اور زیور اپنے مقام پر ہے۔ امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمہما اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ حد فرض سے زیادہ دھونا پسندیدہ امر نہیں۔ دیکھیے: (تیسیر العلام شرح عمدۃ الأحکام:۱ / ۴۶- ۴۸) دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر عضو وضو کو تین تین مرتبہ دھوئے۔ اور تیسرا مفہوم یہ بھی ممکن ہے کہ وضو موجود ہو مگر ثواب کی نیت سے تازہ وضو کرے۔ اور ہر وقت باوضو رہنا بھی مراد ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ دونوں مفہوم ظاہر کے خلاف ہیں۔ 2. اس آخری جملے کے بارے میں راوی کو تردد ہے کہ یہ مرفوع ہے یا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے جیسا کہ مسند احمد اور فتح الباری میں ہے۔ (۱ /۲۳۶‘ حدیث: ۱۳۶) اس لیے اس سے مقررہ حد سے زائد حصے کو دھونے کے استحباب پر استدلال محل نظر ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:(إغاثۃ اللھفان: ۱ /۲۰۰)