بلوغ المرام - حدیث 4

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْمِيَاهِ صحيح وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِذَا كَانَ الْمَاءَ قُلَّتَيْنِ لَمْ يَحْمِلْ الْخَبَثَ)). وَفِي لَفْظٍ: ((لَمْ يَنْجُسْ)). أَخْرَجَهُ الْأَرْبَعَةُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ. وَابْنُ حِبَّانَ وَالحَاكِمُ

ترجمہ - حدیث 4

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: پانی کے احکام ومسائل (مختلف ذرائع سے حاصل شدہ پانی کا بیان) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب پانی کی مقدار دو بڑے مٹکوں کے برابر ہو تو وہ نجاست کو قبول ہی نہیں کرتا۔‘‘ ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں: ’’پانی نجس (ناپاک) نہیں ہوتا۔‘‘ (اسے چاروں نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ‘ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. یہ حدیث پانی کی قلیل و کثیر مقدار کے فرق اور حد بندی میں بالکل واضح اور صریح ہے۔ ان تمام احادیث سے جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جب پانی کی مقدار دو قلوں (مٹکوں) سے کم ہوگی تو وہ محض نجاست کے گرنے ہی سے ناپاک ہو جائے گا‘ خواہ اوصاف ثلاثہ میں سے کسی وصف میں تغیر واقع ہوا ہو یا نہ‘ اور اگر اس کی مقدار قُلَّتَیْن (دو مٹکوں) کے برابر یا اس سے زیادہ ہوگی تو محض وقوع نجاست سے وہ ناپاک نہیں ہوگا بلکہ وہ خود بھی پاک ہی رہے گا اور دوسری چیز کو بھی پاک کرے گا‘ البتہ جب اس نجاست کی وجہ سے ان اوصاف ثلاثہ (بو‘ ذائقہ اور رنگت) میں سے کوئی وصف تبدیل ہو جائے گا تو پھر وہ پانی ناپاک شمار ہوگا جیسا کہ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے۔ جہاں تک بئـر بضاعہ والی حدیث کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں معلوم ہو چکاہے کہ اس میں پانی دو قلے یا اس سے بھی زیادہ تھا۔ 2.اس حدیث کو حفاظ ائمۂ حدیث کے ایک جم غفیر: امام شافعی‘ ابوعبید‘ احمد‘ اسحاق‘ یحییٰ بن معین‘ ابن خزیمہ‘ طحاوی‘ ابن حبان‘ دارقطنی‘ ابن مندہ‘ حاکم‘ خطابی‘ بیہقی‘ ابن حزم اور دیگر ائمہ رحمہم اللہ نے صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ علامہ سیوطی نے ’’قوت المغتذي‘‘ میں نقل کیا ہے۔ 3. یہ اہلحدیث اور شوافع کی دلیل ہے کہ دو قلوں سے کم پانی‘ کثیر کے زمرے میں نہیں آتا اور دو قلوں یا اس سے زیادہ پانی کی مقدار کثیر ہے۔ احناف کا دہ در دہ کا مسئلہ عقلی ہے۔ حدیث کے مقابلے میں عقل کی کیا حیثیت ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ] آپ زاہد اور پختہ علم والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے شمار ہوتے ہیں۔ صِغر سنی میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت بھی کی۔ پہلی مرتبہ غزوئہ خندق میں شریک ہوئے۔ ۷۳ ہجری میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی اور ذی طویٰ نامی جگہ میں دفن ہوئے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الطهارة، باب ما ينجس الماء، حديث:63، والترمذي، الطهارة، حديث:67، والنسائي، الطهارة، حديث:52، وابن ماجه، الطهارة، حديث 517، وابن خزيمة:1 /49، حديث:92، والحاكم:1 / 132، 133، وابن حبان (موارد الظمآن)، حديث:118. 1. یہ حدیث پانی کی قلیل و کثیر مقدار کے فرق اور حد بندی میں بالکل واضح اور صریح ہے۔ ان تمام احادیث سے جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جب پانی کی مقدار دو قلوں (مٹکوں) سے کم ہوگی تو وہ محض نجاست کے گرنے ہی سے ناپاک ہو جائے گا‘ خواہ اوصاف ثلاثہ میں سے کسی وصف میں تغیر واقع ہوا ہو یا نہ‘ اور اگر اس کی مقدار قُلَّتَیْن (دو مٹکوں) کے برابر یا اس سے زیادہ ہوگی تو محض وقوع نجاست سے وہ ناپاک نہیں ہوگا بلکہ وہ خود بھی پاک ہی رہے گا اور دوسری چیز کو بھی پاک کرے گا‘ البتہ جب اس نجاست کی وجہ سے ان اوصاف ثلاثہ (بو‘ ذائقہ اور رنگت) میں سے کوئی وصف تبدیل ہو جائے گا تو پھر وہ پانی ناپاک شمار ہوگا جیسا کہ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے۔ جہاں تک بئـر بضاعہ والی حدیث کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں معلوم ہو چکاہے کہ اس میں پانی دو قلے یا اس سے بھی زیادہ تھا۔ 2.اس حدیث کو حفاظ ائمۂ حدیث کے ایک جم غفیر: امام شافعی‘ ابوعبید‘ احمد‘ اسحاق‘ یحییٰ بن معین‘ ابن خزیمہ‘ طحاوی‘ ابن حبان‘ دارقطنی‘ ابن مندہ‘ حاکم‘ خطابی‘ بیہقی‘ ابن حزم اور دیگر ائمہ رحمہم اللہ نے صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ علامہ سیوطی نے ’’قوت المغتذي‘‘ میں نقل کیا ہے۔ 3. یہ اہلحدیث اور شوافع کی دلیل ہے کہ دو قلوں سے کم پانی‘ کثیر کے زمرے میں نہیں آتا اور دو قلوں یا اس سے زیادہ پانی کی مقدار کثیر ہے۔ احناف کا دہ در دہ کا مسئلہ عقلی ہے۔ حدیث کے مقابلے میں عقل کی کیا حیثیت ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ] آپ زاہد اور پختہ علم والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے شمار ہوتے ہیں۔ صِغر سنی میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت بھی کی۔ پہلی مرتبہ غزوئہ خندق میں شریک ہوئے۔ ۷۳ ہجری میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی اور ذی طویٰ نامی جگہ میں دفن ہوئے۔