کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْوُضُوءِ صحيح وَعَنْهُ: أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - يَأْخُذُ لِأُذُنَيْهِ مَاءً خِلَافَ الْمَاءِ الَّذِي أَخَذَ لِرَأْسِهِ. أَخْرَجَهُ الْبَيْهَقِيُّ.وَهُوَ عِنْدَ مُسْلِمٍ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ بِلَفْظٍ: وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ بِمَاءٍ غَيْرَ فَضْلِ يَدَيْهِ، وَهُوَ الْمَحْفُوظُ.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: وضو کے احکام ومسائل
حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ جو پانی سر کے مسح کے لیے لیتے تھے‘ کانوں کے مسح کے لیے اس سے الگ پانی لیتے تھے۔ (اسے بیہقی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔ اور اسے ترمذی نے بھی صحیح قرار دیاہے۔)اور مسلم میں اسی سند سے یہ روایت ان الفاظ سے منقول ہے: آپ نے سر کا مسح کیا مگر وہ ہاتھوں سے بچا ہوا پانی نہیں تھا۔ یعنی نیا پانی استعمال کیا۔ اور مسلم کی یہی روایت محفوظ ہے۔
تشریح :
امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کی یہی رائے ہے کہ کانوں کے مسح کے لیے نیا پانی لینا چاہیے۔ مگر امام ابوحنیفہ اور سفیان ثوری رحمہما اللہ کی رائے یہ ہے کہ جب کان سر کے ساتھ شامل ہیں تو پھر سر کے مسح کا پانی ہی کانوں کے لیے کافی ہے۔ بکثرت احادیث صحیحہ اسی رائے کی تائید کرتی ہیں۔ بیہقی‘ ابن خزیمہ اور ابن حبان میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صراحتاً مروی ہے: [فَمَسَحَ بِرَأْسِہِ وَأُذُنَیْہِ] کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی لیا تو اس سے سر اور دونوں کانوں کا مسح کیا۔ (السنن الکبرٰی للبیہقي‘ الطھارۃ‘ باب غسل الیدین: ۱ /۵۵‘ ۷۳‘ و ابن خزیمۃ‘ حدیث : ۱۴۸‘ و ابن حبان‘ حدیث:۱۰۸۶ واللفظ لہ) واللّٰہ أعلم بالصواب۔
تخریج :
أخرجه البهقي: 1 / 65، وقال: "هذا إسناد صحيح" ومسلم، الطهارة، باب آخرفي صفة(الوضوء)، حديث: 236، والحديثان محفوظان، والحمدلله.
امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کی یہی رائے ہے کہ کانوں کے مسح کے لیے نیا پانی لینا چاہیے۔ مگر امام ابوحنیفہ اور سفیان ثوری رحمہما اللہ کی رائے یہ ہے کہ جب کان سر کے ساتھ شامل ہیں تو پھر سر کے مسح کا پانی ہی کانوں کے لیے کافی ہے۔ بکثرت احادیث صحیحہ اسی رائے کی تائید کرتی ہیں۔ بیہقی‘ ابن خزیمہ اور ابن حبان میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صراحتاً مروی ہے: [فَمَسَحَ بِرَأْسِہِ وَأُذُنَیْہِ] کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی لیا تو اس سے سر اور دونوں کانوں کا مسح کیا۔ (السنن الکبرٰی للبیہقي‘ الطھارۃ‘ باب غسل الیدین: ۱ /۵۵‘ ۷۳‘ و ابن خزیمۃ‘ حدیث : ۱۴۸‘ و ابن حبان‘ حدیث:۱۰۸۶ واللفظ لہ) واللّٰہ أعلم بالصواب۔