كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ صحيح وَعَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الْعَوَاتِقَ، وَالْحُيَّضَ فِي الْعِيدَيْنِ; يَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ، وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز عیدین کا بیان
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم جوان لڑکیوں اور حائضہ عورتوں کو بھی عیدین میں ساتھ لے کر نکلیں تاکہ وہ بھی خیر و بھلائی اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں‘ البتہ حائضہ عورتیں جائے نماز سے الگ رہیں۔ (نماز میں شامل نہ ہوں‘ صرف دعا میں شرکت کریں۔) (بخاری و مسلم )
تشریح :
1. خواتین کا نماز عید کے لیے جانا اس حدیث کی رو سے ثابت ہے۔ 2.ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی ازواج مطہرات اور اپنی بیٹیوں کو عید گاہ میں لے جاتے تھے۔ (مسند أحمد : ۱ / ۲۳۱‘ و سنن ابن ماجہ‘ إقامۃ الصلوات والسنۃ فیھا‘ حدیث:۱۳۰۹) حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم خواتین کا نماز عید میں حاضر ہونا واجب سمجھتے تھے۔ 3.احناف نے اس حدیث کی تاویل کی ہے اور اسے ابتدائے اسلام کا واقعہ بتایا ہے تاکہ اہل اسلام کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور کثرت تعداد اہل کفر و شرک کے لیے باعث اذیت ہو اور مسلمانوں کی دھاک بیٹھے‘ مگر یہ تاویل جس پر علامہ طحاوی نے بڑا زور قلم صرف کیا ہے‘ قابل لحاظ معلوم نہیں ہوتی کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما گواہی دیتے ہیں کہ ازواج مطہرات وغیرہ عید پڑھنے جاتی تھیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کم عمر تھے‘ ظاہر ہے کہ ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعد کی ہے جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ اس لیے عورتوں کو عید گاہ میں بہر نوع حاضر ہونا چاہیے۔ اور جو لوگ باطل تاویلات کرتے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، العيدين، باب خروج النساء والحيض إلى المصلى، حديث:974، ومسلم، صلاة العيدين، باب ذكر إباحة خروج النساء في العيدين إلى المصلى، حديث:890.
1. خواتین کا نماز عید کے لیے جانا اس حدیث کی رو سے ثابت ہے۔ 2.ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی ازواج مطہرات اور اپنی بیٹیوں کو عید گاہ میں لے جاتے تھے۔ (مسند أحمد : ۱ / ۲۳۱‘ و سنن ابن ماجہ‘ إقامۃ الصلوات والسنۃ فیھا‘ حدیث:۱۳۰۹) حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم خواتین کا نماز عید میں حاضر ہونا واجب سمجھتے تھے۔ 3.احناف نے اس حدیث کی تاویل کی ہے اور اسے ابتدائے اسلام کا واقعہ بتایا ہے تاکہ اہل اسلام کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور کثرت تعداد اہل کفر و شرک کے لیے باعث اذیت ہو اور مسلمانوں کی دھاک بیٹھے‘ مگر یہ تاویل جس پر علامہ طحاوی نے بڑا زور قلم صرف کیا ہے‘ قابل لحاظ معلوم نہیں ہوتی کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما گواہی دیتے ہیں کہ ازواج مطہرات وغیرہ عید پڑھنے جاتی تھیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کم عمر تھے‘ ظاہر ہے کہ ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعد کی ہے جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ اس لیے عورتوں کو عید گاہ میں بہر نوع حاضر ہونا چاہیے۔ اور جو لوگ باطل تاویلات کرتے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔