كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ الْخَوْفِ صحيح وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - صَلَاةَ الْخَوْفِ، فَصَفَّنَا صَفَّيْنِ: صَفٌّ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَالْعَدُوُّ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، فَكَبَّرَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - وَكَبَّرْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ رَكَعَ وَرَكَعْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَرَفَعْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ انْحَدَرَ بِالسُّجُودِ وَالصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ، وَقَامَ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ فِي نَحْرِ الْعَدُوِّ، فَلَمَّا قَضَى السُّجُودَ، قَامَ الصَّفُّ الَّذِي يَلِيهِ ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. وَفِي رِوَايَةٍ: ثُمَّ سَجَدَ وَسَجَدَ مَعَهُ الصَّفُّ الْأَوَّلُ، فَلَمَّا قَامُوا سَجَدَ الصَّفُّ الثَّانِي، ثُمَّ تَأَخَّرَ الصَّفُّ الْأَوَّلِ وَتَقَدَّمَ الصَّفُّ الثَّانِي ... فَذَكَرَ مِثْلَهُ. وَفِي آخِرِهِ: ثُمَّ سَلَّمَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - وَسَلَّمْنَا جَمِيعًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. وَلِأَبِي دَاوُدَ: عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ الزُّرَقِيِّ مِثْلُهُ، وَزَادَ: أَنَّهَا كَانَتْ بِعُسْفَانَ. وَلِلنَّسَائِيِّ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ جَابِرٍ: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - صَلَّى بِطَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى بِآخَرِينَ أَيْضًا رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ. وَمِثْلُهُ لِأَبِي دَاوُدَ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز خوف کا بیان
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف میں حاضر تھا۔ ہم نے دو صفیں بنائیں۔ ایک صف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑی ہوئی جبکہ دشمن ہمارے اور قبلے کے درمیان میں تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا اور ہم سب نے بھی اللہ اکبر کہا‘ پھر آپ نے رکوع کیا اور ہم سب نے بھی رکوع کیا‘ پھر آپ نے رکوع سے اپنا سر اوپر اٹھایا اور ہم سب نے بھی اپنے سر اٹھائے‘ پھر آپ سجدے میں گر گئے اور آپ کے ساتھ والی صف بھی جبکہ پچھلی صف دشمن کے مقابلے کے لیے کھڑی رہی۔ جب آپ نے سجدہ پورا کر لیا تو وہ صف جو آپ کے قریب تھی کھڑی ہوگئی۔ پھر راوی نے ساری حدیث بیان کی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ پھر آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ پہلی صف نے بھی سجدہ کیا‘ پھر جب یہ سب کھڑے ہوگئے تو دوسری صف سجدے میں چلی گئی۔ اور پھر پہلی صف پیچھے ہٹ گئی اور دوسری صف آگے آگئی۔ اور (آگے حدیث) اس کی مثل بیان کی۔ اور اس کے آخر میں ہے کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور ہم سب نے بھی سلام پھیر دیا۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)اور ابوداود نے ابوعیاش زرقی رضی اللہ عنہ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ وہ عسفان کے مقام پر (ادا کی گئی) تھی۔ اور نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری سند کے ساتھ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے ایک گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں‘ پھر سلام پھیر دیا۔ پھر دوسرے گروہ کو بھی اسی طرح دو رکعات پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ اور ابوداود میں بھی حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی ایک روایت ہے۔
تشریح :
اس حدیث میں نماز خوف کی ایک اور صورت ہے۔ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ نماز خوف مختلف طریقوں سے پڑھی گئی ہے۔ سنن نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں جماعتوں کو الگ الگ دو دو رکعتیں پڑھائیں۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں ہوئیں۔ تو گویا آپ نے دو تو فرض پڑھے اور دو نفل ادا کیے کیونکہ دو مرتبہ دو دو فرض تو نہیں ہوتے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ نفل پڑھنے والے امام کے پیچھے مقتدی فرض پڑھ سکتے ہیں۔ احناف نے اس مقام پر انصاف سے کام نہیں لیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ قیاس کو چھوڑ کر حدیث صحیح کی اتباع کرتے لیکن ہوا یوں کہ امام طحاوی رحمہ اللہ جیسے صاحب علم و فضل نے تو الٹا اس حدیث کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کر دیا‘ حالانکہ اس کے منسوخ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت ابوعیاش زُرَقی رضی اللہ عنہ ] ان کا نام زید بن ثابت ہے۔ انصاری زرقی مشہور ہیں۔ زرقی کے ’’زا‘‘ پر ضمہ اور ’’را‘‘ پر فتحہ ہے۔ ان سے ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔ ۴۰ ہجری کے بعد وفات پائی۔
تخریج :
أخرجه مسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الخوف، حديث:840، وحديث أبي عياش الزرقي أخرجه أبوداود، صلاة السفر، حديث:1236 وسنده صحيح،وحديث جابر أخرجه النسائي، صلاة الخوف، حديث:1553 وهو حديث صحيح، وحديث أبي بكرة أخرجه أبوداود، صلاة السفر، حديث:1248 وهو حديث صحيح.
اس حدیث میں نماز خوف کی ایک اور صورت ہے۔ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ نماز خوف مختلف طریقوں سے پڑھی گئی ہے۔ سنن نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں جماعتوں کو الگ الگ دو دو رکعتیں پڑھائیں۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں ہوئیں۔ تو گویا آپ نے دو تو فرض پڑھے اور دو نفل ادا کیے کیونکہ دو مرتبہ دو دو فرض تو نہیں ہوتے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ نفل پڑھنے والے امام کے پیچھے مقتدی فرض پڑھ سکتے ہیں۔ احناف نے اس مقام پر انصاف سے کام نہیں لیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ قیاس کو چھوڑ کر حدیث صحیح کی اتباع کرتے لیکن ہوا یوں کہ امام طحاوی رحمہ اللہ جیسے صاحب علم و فضل نے تو الٹا اس حدیث کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کر دیا‘ حالانکہ اس کے منسوخ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت ابوعیاش زُرَقی رضی اللہ عنہ ] ان کا نام زید بن ثابت ہے۔ انصاری زرقی مشہور ہیں۔ زرقی کے ’’زا‘‘ پر ضمہ اور ’’را‘‘ پر فتحہ ہے۔ ان سے ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔ ۴۰ ہجری کے بعد وفات پائی۔