كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ الْخَوْفِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قِبَلَ نَجْدٍ، فَوَازَيْنَا الْعَدُوَّ، فَصَافَفْنَاهُمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يُصَلِّي بِنَا، فَقَامَتْ طَائِفَةٌ مَعَهُ، وَأَقْبَلَتْ طَائِفَةٌ عَلَى الْعَدُوِّ، وَرَكَعَ بِمَنْ مَعَهُ، وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفُوا مَكَانَ الطَّائِفَةِ الَّتِي لَمْ تُصَلِّ فَجَاءُوا، فَرَكَعَ بِهِمْ رَكْعَةً، وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، فَقَامَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ، فَرَكَعَ لِنَفْسِهِ رَكْعَةً، وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز خوف کا بیان
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نجد کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ایک غزوے میں گیا۔ ہم نے دشمن کو اپنے سامنے پایا تو ہم نے ان کے بالمقابل صفیں بنائیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہمیں نماز پڑھائی۔ ایک جماعت‘ نماز ادا کرنے کے لیے آپ کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور ایک گروہ دشمن کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ جو جماعت آپ کے ساتھ (نماز میں شریک) تھی اس نے آپ کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کیے اور اس گروہ کی جگہ واپس چلی گئی جس نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی تھی۔ پھر اس جماعت کے افراد آئے‘ آپ نے ان کے ساتھ بھی ایک رکوع اور دو سجدے کیے‘ پھر آپ نے سلام پھیر دیا مگر ان (دونوں) میں سے ہر ایک (گروہ )نے اٹھ کر (الگ الگ اپنی رکعت ادا کرتے ہوئے) ایک رکوع اور دو سجدے کیے۔ (بخاری و مسلم- الفاظ بخاری کے ہیں۔)
تشریح :
1. مصنف نے نماز خوف کی پانچ صورتیں بیان کی ہیں۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے چودہ ‘ ابن العربی اور امام نووی رحمہما اللہ نے سولہ اور شیخ ابوالفضل نے ترمذی کی شرح میں سترہ صورتیں ذکر کی ہیں۔ سنن ابی داود میں آٹھ صورتیں ہیں۔ 2. امام احمد رحمہ اللہ کے بقول نماز خوف کے سلسلے میں چھ یا سات صحیح احادیث ثابت ہیں‘ ان میں سے جس کے مطابق نماز پڑھی جائے جائز ہے، کوئی مخصوص طریقہ نہیں۔ حالات کے مطابق جس طور پر پڑھنا ممکن ہو پڑھ لی جائے۔ 3.اس نماز کے مسنون و مشروع ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں اور صاحب زاد المعاد نے بھی اس نماز کی یہی چھ کیفیتیں بیان کی ہیں اور جن حضرات نے اس سے زیادہ ذکر کی ہیں انھوں نے جہاں کہیں بیان واقعہ میں اختلاف دیکھا اسے الگ شمار کر لیا‘ حقیقت میں وہ الگ نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو قابل اعتماد قرار دیا ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الخوف، باب صلاة الخوف، حديث:942، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الخوف، حديث:839.
1. مصنف نے نماز خوف کی پانچ صورتیں بیان کی ہیں۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے چودہ ‘ ابن العربی اور امام نووی رحمہما اللہ نے سولہ اور شیخ ابوالفضل نے ترمذی کی شرح میں سترہ صورتیں ذکر کی ہیں۔ سنن ابی داود میں آٹھ صورتیں ہیں۔ 2. امام احمد رحمہ اللہ کے بقول نماز خوف کے سلسلے میں چھ یا سات صحیح احادیث ثابت ہیں‘ ان میں سے جس کے مطابق نماز پڑھی جائے جائز ہے، کوئی مخصوص طریقہ نہیں۔ حالات کے مطابق جس طور پر پڑھنا ممکن ہو پڑھ لی جائے۔ 3.اس نماز کے مسنون و مشروع ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں اور صاحب زاد المعاد نے بھی اس نماز کی یہی چھ کیفیتیں بیان کی ہیں اور جن حضرات نے اس سے زیادہ ذکر کی ہیں انھوں نے جہاں کہیں بیان واقعہ میں اختلاف دیکھا اسے الگ شمار کر لیا‘ حقیقت میں وہ الگ نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو قابل اعتماد قرار دیا ہے۔