كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ الْخَوْفِ صحيح عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ، - عَمَّنْ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَوْمَ ذَاتِ الرِّقَاعِ صَلَاةَ الْخَوْفِ: أَنَّ طَائِفَةً صَلَّتْ مَعَهُ وَطَائِفَةٌ وِجَاهَ الْعَدُوِّ، فَصَلَّى بِالَّذِينَ مَعَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ ثَبَتَ قَائِمًا وَأَتَمُّوا لِأَنْفُسِهِمْ، ثُمَّ انْصَرَفُوا فَصَفُّوا وِجَاهَ الْعَدُوِّ، وَجَاءَتِ الطَّائِفَةُ الْأُخْرَى، فَصَلَّى بِهِمُ الرَّكْعَةَ الَّتِي بَقِيَتْ، ثُمَّ ثَبَتَ جَالِسًا وَأَتَمُّوا لِأَنْفُسِهِمْ، ثُمَّ سَلَّمَ بِهِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ. وَوَقَعَ فِي ((الْمَعْرِفَةِ)) لِابْنِ مَنْدَهْ، عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ، عَنْ أَبِيهِ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز خوف کا بیان
حضرت صالح بن خوات رحمہ اللہ نے ایسے شخص سے روایت کیا ہے جس نے ذات الرقاع کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف پڑھی تھی۔ اس شخص نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام کے ایک گروہ نے آپ کے ساتھ نماز کے لیے صف بندی کی اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے کے لیے ان کے روبرو صف آرا ہوگیا۔ آپ نے ان لوگوں کو جو آپ کے ساتھ صف باندھ کر کھڑے تھے ایک رکعت پڑھائی‘ پھر آپ سیدھے کھڑے رہے اور انھوں نے اپنے طور پر باقی نماز مکمل کر لی‘ پھر وہ چلے گئے اور جا کر دشمن کے سامنے صف آرا ہوگئے اور دوسرا گروہ آگیا۔ آپ نے اسے اپنی باقی ماندہ ایک رکعت پڑھائی‘ پھر آپ بیٹھے رہے اور انھوں نے اس دوران میں اپنے طور پر نماز مکمل کر لی‘ پھر آپ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔ (بخاری و مسلم- الفاظ مسلم کے ہیں۔ ابن مندہ کی (کتاب) المعرفۃ میں ہے کہ صالح بن خوات یہ روایت اپنے والد سے بیان کرتے ہیں۔)
تشریح :
1. نماز خوف کئی طریقوں سے پڑھی گئی ہے۔ جیسا موقع محل ہوتا تھا اس کی مناسبت سے نماز ادا کی جاتی۔ مذکورہ بالا حدیث میں جو صورت ذکر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ امام نے ہر ایک گروہ کو ایک ایک رکعت پڑھائی اور ایک ایک رکعت انھوں نے اپنے طور پر پڑھی۔ پہلے گروہ نے تو خود سلام پھیرا مگر دوسرے گروہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ 2. امام ابوحنیفہ‘ امام شافعی‘ امام احمد رحمہم اللہ اور جمہور کے نزدیک خوف کی صورت میں سفر و حضر دونوں میں نماز خوف پڑھنا جائز ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نماز خوف کے لیے سفر کی شرط لگاتے ہیں۔ 3.قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت: ﴿ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ… ﴾ الآیۃ (النسآء ۴:۱۰۱) میں دو شرطیں ہیں: ایک سفر اور دوسری خوفِ دشمن۔ مگر جمہور کا مسلک یہ ہے کہ نماز خوف اور نماز قصر دونوں الگ الگ نمازیں ہیں۔ سفر میں قصر کے لیے خوف دشمن کی شرط نہیں اور نماز خوف کے لیے سفر کی شرط نہیں۔ دونوں نمازوں کے ساتھ کوئی شرط لگانا بے معنی ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت صالح بن خَوَّات رحمہ اللہ ] صالح بن خوات بن جبیر بن نعمان انصاری مدنی۔ ’’خا‘‘ پر فتحہ اور ’’واو‘‘ پر فتحہ اور تشدید ہے۔ مشہور و معروف تابعین میں سے ہیں۔ بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے حدیث سنی ہے۔ [حضرت خَوَّات رضی اللہ عنہ ] جلیل القدر صحابی ہیں۔ پہلا غزوہ جس میں یہ شریک ہوئے غزوۂ احد ہے۔ اور ایک قول کے مطابق غزوۂ بدر میں بھی شریک تھے۔ ۴۰ ہجری میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ۴۰ ہجری کے بعد فوت ہوئے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر ۷۰ یا ۷۱ سال تھی۔
تخریج :
أخرجه البخاري، المغازي، باب غزوة ذات الرقاع، حديث:4131، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الخوف، حديث:841.
1. نماز خوف کئی طریقوں سے پڑھی گئی ہے۔ جیسا موقع محل ہوتا تھا اس کی مناسبت سے نماز ادا کی جاتی۔ مذکورہ بالا حدیث میں جو صورت ذکر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ امام نے ہر ایک گروہ کو ایک ایک رکعت پڑھائی اور ایک ایک رکعت انھوں نے اپنے طور پر پڑھی۔ پہلے گروہ نے تو خود سلام پھیرا مگر دوسرے گروہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ 2. امام ابوحنیفہ‘ امام شافعی‘ امام احمد رحمہم اللہ اور جمہور کے نزدیک خوف کی صورت میں سفر و حضر دونوں میں نماز خوف پڑھنا جائز ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نماز خوف کے لیے سفر کی شرط لگاتے ہیں۔ 3.قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت: ﴿ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ… ﴾ الآیۃ (النسآء ۴:۱۰۱) میں دو شرطیں ہیں: ایک سفر اور دوسری خوفِ دشمن۔ مگر جمہور کا مسلک یہ ہے کہ نماز خوف اور نماز قصر دونوں الگ الگ نمازیں ہیں۔ سفر میں قصر کے لیے خوف دشمن کی شرط نہیں اور نماز خوف کے لیے سفر کی شرط نہیں۔ دونوں نمازوں کے ساتھ کوئی شرط لگانا بے معنی ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت صالح بن خَوَّات رحمہ اللہ ] صالح بن خوات بن جبیر بن نعمان انصاری مدنی۔ ’’خا‘‘ پر فتحہ اور ’’واو‘‘ پر فتحہ اور تشدید ہے۔ مشہور و معروف تابعین میں سے ہیں۔ بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے حدیث سنی ہے۔ [حضرت خَوَّات رضی اللہ عنہ ] جلیل القدر صحابی ہیں۔ پہلا غزوہ جس میں یہ شریک ہوئے غزوۂ احد ہے۔ اور ایک قول کے مطابق غزوۂ بدر میں بھی شریک تھے۔ ۴۰ ہجری میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ۴۰ ہجری کے بعد فوت ہوئے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر ۷۰ یا ۷۱ سال تھی۔