كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةُ الْجُمُعَةِ صحيح وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا خَطَبَ، احْمَرَّتْ عَيْنَاهُ، وَعَلَا صَوْتُهُ، وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ، حَتَّى كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشٍ يَقُولُ: صَبَّحَكُمْ وَمَسَّاكُمْ، وَيَقُولُ: ((أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ. وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ كَانَتْ خُطْبَةُ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - يَوْمَ الْجُمُعَةِ: يَحْمَدُ اللَّهَ وَيُثْنِي عَلَيْهِ، ثُمَّ يَقُولُ عَلَى إِثْرِ ذَلِكَ، وَقَدْ عَلَا صَوْتُهُ. وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ: ((مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ)). وَلِلنَّسَائِيِّ: ((وَكُلَّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ)).
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز جمعہ کا بیان
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں‘ آواز بلند ہو جاتی اور غصہ سخت ہو جاتا حتی کہ آپ کی کیفیت اس طرح ہو جاتی جیسے کسی لشکر (کے حملے) سے ڈرا رہے ہیں کہ ’’دشمن کا لشکر صبح کو پہنچا یا شام کو پہنچا‘‘ اور فرماتے: ’’حمد و صلاۃ کے بعد‘ بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا طریقہ ہے۔ (کاموں میں سے) بدترین کام‘ نئے کام ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ ‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔) اور مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے: جمعے کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ (یوں) ہوتا تھا کہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے‘ پھر اس کے بعد (خطبہ) ارشاد فرماتے اور آپ کی آواز بلند ہو جاتی۔ اور مسلم ہی کی ایک روایت میں یہ ہے: ’’جسے اللہ راہ ہدایت پر گامزن فرما دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔‘‘ اور نسائی میں ہے : ’’اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے۔‘‘
تشریح :
یہ وہ خطبہ ٔمسنونہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ثابت ہے۔ خطبے کے دوران میں خطیب پر مختلف حالتیں وارد ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کسی وقت چہرے پر ایسے آثار نمایاں ہوتے ہیں جس سے سامعین کو متأثر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ خطبے میں اللہ تعالیٰ ہی کی حمد و ثنا ہونی چاہیے۔ خطبہ مختصر مگر جامع ہو۔ خطبے میں ایسا انداز اختیار کیا جائے کہ سامعین اس سے متأثر بھی ہوں اور محظوظ بھی‘ لیکن تکلف سے اجتناب کرنا چاہیے۔ خطبے کو طول دینے سے بھی احتراز کرنا چاہیے‘ اس لیے کہ مختصر مگر جامع خطبہ سامعین کی سمع خراشی کا موجب نہیں بنتا بلکہ اسے یاد رکھنا سہل اور آسان ہوتا ہے اور اپنا بہترین اثر چھوڑتا ہے۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الجمعة، باب تخفيف الصلاة والخطبة، حديث:867، والنسائي، صلاة العيدين، حديث:1579.
یہ وہ خطبہ ٔمسنونہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ثابت ہے۔ خطبے کے دوران میں خطیب پر مختلف حالتیں وارد ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کسی وقت چہرے پر ایسے آثار نمایاں ہوتے ہیں جس سے سامعین کو متأثر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ خطبے میں اللہ تعالیٰ ہی کی حمد و ثنا ہونی چاہیے۔ خطبہ مختصر مگر جامع ہو۔ خطبے میں ایسا انداز اختیار کیا جائے کہ سامعین اس سے متأثر بھی ہوں اور محظوظ بھی‘ لیکن تکلف سے اجتناب کرنا چاہیے۔ خطبے کو طول دینے سے بھی احتراز کرنا چاہیے‘ اس لیے کہ مختصر مگر جامع خطبہ سامعین کی سمع خراشی کا موجب نہیں بنتا بلکہ اسے یاد رکھنا سہل اور آسان ہوتا ہے اور اپنا بہترین اثر چھوڑتا ہے۔