کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْوُضُوءِ صحيح وَعَنْ لَقِيطِ بْنُ صَبْرَةَ، - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((أَسْبِغِ الْوُضُوءَ، وَخَلِّلْ بَيْنَ الْأَصَابِعِ، وَبَالِغْ فِي الِاسْتِنْشَاقِ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا)). أَخْرَجَهُ الْأَرْبَعَةُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَة. وَلِأَبِي دَاوُدَ فِي رِوَايَةٍ: ((إِذَا تَوَضَّأْتَ فَمَضْمِضْ)).
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: وضو کے احکام ومسائل
حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وضو اچھی طرح پورا کرو اور انگلیوں کے درمیان خلال کرو اور ناک میں پانی اچھی طرح چڑھاؤ‘ مگر روزے کی حالت میں (ایسا نہ کرو۔‘‘) (اس روایت کو چاروں نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔) اور ابوداود کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:’’ جب تو وضو کرے تو کلی کر۔‘‘
تشریح :
اعضائے وضو کو اچھی اور پوری طرح دھونا چاہیے اور ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا چاہیے تاکہ کہیں کوئی جگہ خشک نہ رہ جائے۔ راوئ حدیث: [حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ ] ’’لام‘‘ کے فتحہ اور ’’قاف‘‘ کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ صبرۃ ’’صاد‘‘ کے فتحہ اور ’’با‘‘ کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ نسب نامہ یوں ہے: لقیط بن صبرۃ بن عبداللّٰہ بن المنتفق بن عامر العامري رضی اللہ عنہ ۔ وفد بنو منتفق کے قائد تھے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ لقیط بن عامر بن صبرہ ہیں جو ابورزین عقیلی کے نام سے مشہور ہیں۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے یہی ہے۔ اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ دو الگ الگ شخصیات ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ امام علی بن مدینی اور امام مسلم رحمہ اللہ وغیرہ کی بھی یہی رائے ہے۔ (الإصابۃ۔ تہذیب)
تخریج :
أخرجه أبوداود، الطهارة، باب في الاستنشار، حديث:142-144، والترمذي، الطهارة، حديث:38، والنسائي، الطهارة، حديث:87، وابن ماجه، الطهارة، حديث:448، وابن خزيمة:1 / 78، حديث:150.
اعضائے وضو کو اچھی اور پوری طرح دھونا چاہیے اور ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا چاہیے تاکہ کہیں کوئی جگہ خشک نہ رہ جائے۔ راوئ حدیث: [حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ ] ’’لام‘‘ کے فتحہ اور ’’قاف‘‘ کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ صبرۃ ’’صاد‘‘ کے فتحہ اور ’’با‘‘ کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ نسب نامہ یوں ہے: لقیط بن صبرۃ بن عبداللّٰہ بن المنتفق بن عامر العامري رضی اللہ عنہ ۔ وفد بنو منتفق کے قائد تھے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ لقیط بن عامر بن صبرہ ہیں جو ابورزین عقیلی کے نام سے مشہور ہیں۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے یہی ہے۔ اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ دو الگ الگ شخصیات ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ امام علی بن مدینی اور امام مسلم رحمہ اللہ وغیرہ کی بھی یہی رائے ہے۔ (الإصابۃ۔ تہذیب)