بلوغ المرام - حدیث 355

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةُ الْجُمُعَةِ صحيح وَعَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ - رضي الله عنه - قَالَ: كُنَّا نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - الْجُمُعَةَ، ثُمَّ نَنْصَرِفُ وَلَيْسَ لِلْحِيطَانِ ظِلٌّ نَسْتَظِلُّ بِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ. وَفِي لَفْظٍ لِمُسْلِمٍ: كُنَّا نَجْمَعُ مَعَهُ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ نَرْجِعُ، نَتَتَبَّعُ الْفَيْءَ.

ترجمہ - حدیث 355

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نماز جمعہ کا بیان حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ ادا کرتے تھے‘ پھر جب ہم جمعے سے فارغ ہوکر اپنے گھروں کو جاتے تو اس وقت دیواروں کا سایہ نہیں ہوتا تھا کہ ہم اس میں بیٹھ کر آرام کر لیں (یا اس سائے میں چل کر گھر پہنچ جائیں۔) (بخاری و مسلم- الفاظ بخاری کے ہیں۔) اور مسلم میں ہے کہ ہم آپ کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرتے جب زوال ہو جاتا‘ پھر ہم واپس ہوتے تو بڑی جستجو سے سایہ تلاش کرتے۔
تشریح : 1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نماز جمعہ بہت جلد ادا کی جاتی تھی۔ 2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز جمعہ زوال سے پہلے بہرحال نہیں ہوتی تھی۔ اس کا وقت بھی نماز ظہر کا وقت ہے۔ علمائے اسلام کی اکثریت اسی طرف گئی ہے‘ البتہ امام احمد اور اسحٰق بن راہویہ ; کی رائے یہ ہے کہ جمعہ زوال سے پہلے بھی ہو جاتا ہے‘ نیز امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک خطبۂجمعہ تو زوال سے پہلے جائز ہے مگر نماز درست نہیں‘ وہ زوال آفتاب کے بعد ہی ہے۔ آج کل جمعے کی نماز ظہر کی نماز سے بھی زیادہ دیر سے پڑھتے ہیں جو سراسر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مخالف ہے۔ خطباء و ائمۂ مساجد کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ راوئ حدیث: [حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ] ابو مسلم ان کی کنیت ہے۔ نام سلمہ بن عمرو بن اکوع ہے۔ اور اکوع کا نام سنان بن عبداللہ اسلمی مدنی ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے نہایت بہادروں میں شمار ہوتے تھے۔ اتنے تیز رفتار تھے کہ دوڑنے میں گھوڑے سے بھی آگے نکل جاتے تھے۔ بہت سخی‘ فاضل اور بھلائی کا مجسمہ تھے۔ مدینہ منورہ میں ۷۴ ہجری میں وفات پائی۔
تخریج : أخرجه البخاري، المغازي، باب غزوة الحديبية، حديث:4168، ومسلم، الجمعة، باب صلاة الجمعة حين تزول الشمس، حديث:860. 1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نماز جمعہ بہت جلد ادا کی جاتی تھی۔ 2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز جمعہ زوال سے پہلے بہرحال نہیں ہوتی تھی۔ اس کا وقت بھی نماز ظہر کا وقت ہے۔ علمائے اسلام کی اکثریت اسی طرف گئی ہے‘ البتہ امام احمد اور اسحٰق بن راہویہ ; کی رائے یہ ہے کہ جمعہ زوال سے پہلے بھی ہو جاتا ہے‘ نیز امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک خطبۂجمعہ تو زوال سے پہلے جائز ہے مگر نماز درست نہیں‘ وہ زوال آفتاب کے بعد ہی ہے۔ آج کل جمعے کی نماز ظہر کی نماز سے بھی زیادہ دیر سے پڑھتے ہیں جو سراسر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مخالف ہے۔ خطباء و ائمۂ مساجد کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ راوئ حدیث: [حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ] ابو مسلم ان کی کنیت ہے۔ نام سلمہ بن عمرو بن اکوع ہے۔ اور اکوع کا نام سنان بن عبداللہ اسلمی مدنی ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے نہایت بہادروں میں شمار ہوتے تھے۔ اتنے تیز رفتار تھے کہ دوڑنے میں گھوڑے سے بھی آگے نکل جاتے تھے۔ بہت سخی‘ فاضل اور بھلائی کا مجسمہ تھے۔ مدینہ منورہ میں ۷۴ ہجری میں وفات پائی۔