كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةُ الْجُمُعَةِ صحيح عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، - أَنَّهُمَا سَمِعَا [ص:129] رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ - عَلَى أَعْوَادِ مِنْبَرِهِ: ((لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعِهِمُ الْجُمُعَاتِ، أَوْ لَيَخْتِمَنَّ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ، ثُمَّ لَيَكُونُنَّ مِنَ الْغَافِلِينَ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز جمعہ کا بیان
حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے منبر پر یہ فرماتے سنا ہے: ’’لوگ نماز جمعہ چھوڑنے سے ضرور باز آجائیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا‘ پھر وہ غافلین میں سے ہو جائیں گے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
1. جمعہ کے لغوی معنی ایک جگہ جمع ہونے کے ہیں‘ اس دن کو دور جاہلیت میں ’’عروبہ‘‘ کہتے تھے۔ اسلام نے اس کا نام جمعہ رکھا کہ مسلمان ایک مخصوص دن میں مخصوص اوقات میں عبادت الٰہی کے لیے مجتمع ہوں اور مل کر سب اکٹھے عبادت کریں اور ایک دوسرے کے حالات سے باخبر بھی ہوں اور اجتماعی فیصلے بھی کیے جا سکیں۔ 2. اس حدیث سے جمعہ کی فرضیت ثابت ہوتی ہے‘ اسے کسی عذر شرعی کے بغیر ترک کرنے کی وجہ سے دلوں پر مہریں لگ جاتی ہیں اور آدمی دین سے بے بہرہ ہو جاتا ہے‘ اور پھر آخر کار منافقین و غافلین کے زمرے میں شامل ہو کر رہ جاتا ہے۔ گویا نماز جمعہ کو معمولی سمجھ کر اس بارے میں تساہل اور سستی کا مظاہرہ کرنا رسوائی اور خذلان کا موجب ہے اور توفیق الٰہی سے محروم رہنے کا باعث بھی۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الجمعة، باب التغليظ في ترك الجمعة، حديث:865.
1. جمعہ کے لغوی معنی ایک جگہ جمع ہونے کے ہیں‘ اس دن کو دور جاہلیت میں ’’عروبہ‘‘ کہتے تھے۔ اسلام نے اس کا نام جمعہ رکھا کہ مسلمان ایک مخصوص دن میں مخصوص اوقات میں عبادت الٰہی کے لیے مجتمع ہوں اور مل کر سب اکٹھے عبادت کریں اور ایک دوسرے کے حالات سے باخبر بھی ہوں اور اجتماعی فیصلے بھی کیے جا سکیں۔ 2. اس حدیث سے جمعہ کی فرضیت ثابت ہوتی ہے‘ اسے کسی عذر شرعی کے بغیر ترک کرنے کی وجہ سے دلوں پر مہریں لگ جاتی ہیں اور آدمی دین سے بے بہرہ ہو جاتا ہے‘ اور پھر آخر کار منافقین و غافلین کے زمرے میں شامل ہو کر رہ جاتا ہے۔ گویا نماز جمعہ کو معمولی سمجھ کر اس بارے میں تساہل اور سستی کا مظاہرہ کرنا رسوائی اور خذلان کا موجب ہے اور توفیق الٰہی سے محروم رہنے کا باعث بھی۔