بلوغ المرام - حدیث 341

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِ وَالْمَرِيضِ صحيح عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا فُرِضَتْ الصَّلَاةُ رَكْعَتَيْنِ، فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ وَأُتِمَّتْ صَلَاةُ الْحَضَرِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَلِلْبُخَارِيِّ: ثُمَّ هَاجَرَ، فَفُرِضَتْ أَرْبَعًا، وَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ عَلَى الْأَوَّلِ. زَادَ أَحْمَدُ: إِلَّا الْمَغْرِبَ، فَإِنَّهَا وِتْرُ النَّهَارِ، وَإِلَّا الصُّبْحَ، فَإِنَّهَا تَطُولُ فِيهَا الْقِرَاءَةُ.

ترجمہ - حدیث 341

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: مسافر اور مریض کی نماز کا بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابتدا میں (سفر و حضر کی) نماز دو دو رکعت فرض کی گئی تھی‘ پھر سفر کی نماز کو اسی حالت پر رکھا گیا اور حضر کی نماز (چار رکعتیں) مکمل کر دی گئی۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ پھر آپ نے ہجرت کی تونماز چار رکعت فرض کر دی گئی اور سفر کی نماز پہلی حالت پر برقرار رکھی گئی۔ احمد نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ سوائے نماز مغرب کے کیونکہ وہ دن کے وتر ہیں اور بجز صبح کی نماز کے کیونکہ اس نماز میں قراء ت لمبی کی جاتی ہے۔
تشریح : 1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتدا میں حضر و سفر کی نماز دو دو رکعت فرض تھی‘ بعد میں سفر کی نماز کو اپنی حالت پر رکھا گیا‘ البتہ حضر کی نماز میں دو رکعتوں کا مزید اضافہ کر دیا گیا۔ 2. قرآن مجید میں نماز قصر کا جو بیان ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں قصر نماز پڑھنا جائز ہے‘ واجب نہیں۔ 3.امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک ہے کہ سفر میں قصر واجب ہے جبکہ امام احمد اور امام شافعی; وغیرہ اسے سنت قرار دیتے ہیں اور اسے رخصت پر محمول کرتے ہیں اور یہی قول راجح ہے۔ 4. سنن دارقطنی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ دوران سفر میں نے پوری نماز پڑھی۔ آپ کو جب اس کی خبر دی تو آپ نے میری تحسین کی۔ (سنن الدارقطني:۲ / ۱۸۸‘ وسنن الکبرٰی للبیھقي:۳ / ۱۴۲) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اتباع میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اور دیگر متاخرین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے جو کہ صحیح موقف ہے جبکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (زاد المعاد بتحقیق شعیب الأرنؤوط و عبدالقادر الأرنؤوط:۱ / ۴۴۷. ۴۵۵)
تخریج : أخرجه البخاري، الصلاة، باب كيف فرضت الصلوات في الإسراء، حديث:350، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة المسافرين وقصرها، حديث:685، وحديث ((ثم هاجر....)) أخرجه البخاري، حديث: 3935، وحديث ((إلا المغرب فإنها وترالنهار)) أخرجه أحمد:6 /241، 272 وهو حديث صحيح. 1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتدا میں حضر و سفر کی نماز دو دو رکعت فرض تھی‘ بعد میں سفر کی نماز کو اپنی حالت پر رکھا گیا‘ البتہ حضر کی نماز میں دو رکعتوں کا مزید اضافہ کر دیا گیا۔ 2. قرآن مجید میں نماز قصر کا جو بیان ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں قصر نماز پڑھنا جائز ہے‘ واجب نہیں۔ 3.امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک ہے کہ سفر میں قصر واجب ہے جبکہ امام احمد اور امام شافعی; وغیرہ اسے سنت قرار دیتے ہیں اور اسے رخصت پر محمول کرتے ہیں اور یہی قول راجح ہے۔ 4. سنن دارقطنی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ دوران سفر میں نے پوری نماز پڑھی۔ آپ کو جب اس کی خبر دی تو آپ نے میری تحسین کی۔ (سنن الدارقطني:۲ / ۱۸۸‘ وسنن الکبرٰی للبیھقي:۳ / ۱۴۲) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اتباع میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اور دیگر متاخرین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے جو کہ صحیح موقف ہے جبکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (زاد المعاد بتحقیق شعیب الأرنؤوط و عبدالقادر الأرنؤوط:۱ / ۴۴۷. ۴۵۵)