کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْوُضُوءِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ مَنَامِهِ فَلْيَسْتَنْثِرْ ثَلَاثًا، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَبِيتُ عَلَى خَيْشُومِهِ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْه.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: وضو کے احکام ومسائل
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدار ہو تو تین مرتبہ اپنی ناک جھاڑ کر صاف کرے‘ اس لیے کہ شیطان اس کی ناک کے نتھنوں کی ہڈی (بانسے) پر رات بسر کرتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تشریح :
1. شیطان کا رات گزارنا حقیقت پر بھی محمول ہوسکتا ہے (اور یہی حدیث کے ظاہری معنی کے زیادہ قریب ہے) اور یہ بھی احتمال ہے کہ مجازاً ہو اور اس سے مراد ناک کا وہ فضلہ اور گندگی ہو جو ناک میں جمع ہو کر جم جاتی ہے اور پھر اس کی وجہ سے طبیعت سست اور بوجھل ہو جاتی ہے جو کہ شیطان کی طبیعت اور خوشی کے موافق اور مطابق ہے‘ اس لیے اس گندگی کو شیطان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 2. اس حدیث میں ناک جھاڑنے کا حکم مطلق ہے لیکن اسے یا تو وضو کے ساتھ مقید کیا جائے گا جیسا کہ بعض روایات اس کی تائید بھی کرتی ہیں، تو پھر یہ ناک جھاڑنا افعالِ وضو میں سے شمار ہو گا‘ یا پھر اسے مطلق ہی شمار کیا جائے گا اور یہ وضو سے پہلے کیا جائے گا اور اسے وضو سے پہلے بطور تیاری کیے جانے والے کاموں سے شمار کیا جائے گا‘ جیسے استنجا وغیرہ۔ بہرحال جو بھی مراد ہو‘ مقید یا مطلق‘ دونوں صورتوں میں یہ حدیث اس باب میں پیش کرنا درست ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، بدء الخلق، باب صفة إبليس وجنوده، حديث:3295، ومسلم، الطهارة، باب الإيتار في الاستنشار والاستجمار،حديث:238.
1. شیطان کا رات گزارنا حقیقت پر بھی محمول ہوسکتا ہے (اور یہی حدیث کے ظاہری معنی کے زیادہ قریب ہے) اور یہ بھی احتمال ہے کہ مجازاً ہو اور اس سے مراد ناک کا وہ فضلہ اور گندگی ہو جو ناک میں جمع ہو کر جم جاتی ہے اور پھر اس کی وجہ سے طبیعت سست اور بوجھل ہو جاتی ہے جو کہ شیطان کی طبیعت اور خوشی کے موافق اور مطابق ہے‘ اس لیے اس گندگی کو شیطان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 2. اس حدیث میں ناک جھاڑنے کا حکم مطلق ہے لیکن اسے یا تو وضو کے ساتھ مقید کیا جائے گا جیسا کہ بعض روایات اس کی تائید بھی کرتی ہیں، تو پھر یہ ناک جھاڑنا افعالِ وضو میں سے شمار ہو گا‘ یا پھر اسے مطلق ہی شمار کیا جائے گا اور یہ وضو سے پہلے کیا جائے گا اور اسے وضو سے پہلے بطور تیاری کیے جانے والے کاموں سے شمار کیا جائے گا‘ جیسے استنجا وغیرہ۔ بہرحال جو بھی مراد ہو‘ مقید یا مطلق‘ دونوں صورتوں میں یہ حدیث اس باب میں پیش کرنا درست ہے۔