بلوغ المرام - حدیث 337

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ وَالْإِمَامَةِ حسن وَعَنْ أُمِّ وَرَقَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - أَمَرَهَا أَنْ تَؤُمَّ أَهْلَ دَارِهَا [ص:123] رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ.

ترجمہ - حدیث 337

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نماز با جماعت اور امامت کے مسائل کا بیان حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے گھر والوں کی امامت کرانے کا حکم فرمایا تھا۔(اسے ابوداود نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت فرائض امامت انجام دے سکتی ہے۔ کن کی امامت کرا سکتی ہے؟ اس سے بعض لوگوں کو مغالطہ ہوا ہے کہ گھر کے افراد میں تو مرد بھی ہوتے ہوں گے‘ لہٰذا اس سے تو عورت کا مرد کی امام بننا بھی ثابت ہوتا ہے۔ مگر یہ قطعاً درست نہیں کیونکہ مردوں پر فرض نماز کے لیے مسجد میں حاضری ضروری ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے‘ اس لیے یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ مرد نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا چھوڑ کر عورت کی اقتدا و امامت میں نماز پڑھتے ہوں‘ نیز ابوداود کی تفصیلی روایت کہ جس میں بوڑھے مؤذن کے اذان دینے کا ذکر ہے‘ اس سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ وہ مؤذن بھی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہوگا، لیکن یہ محض ایک احتمال ہی ہے‘ کسی بھی حدیث میں صراحتًا مؤذن کے نماز پڑھنے کا قطعًا ذکر نہیں ملتا، اس لیے غالب احتمال یہی ہے کہ مؤذن اذان دے کر نماز مسجد نبوی ہی میں پڑھتا ہوگا۔ واللّٰہ أعلم۔ علاوہ ازیں مردوں اور عورتوں کی صفوں میں فاصلے والی حدیث بھی اس کی تائید میں ہے کہ مردوں کا عورتوں سے دور رہنا ہی بہتر ہے‘ نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ ‘ یتیم اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم کو جب آپ نے جماعت کرائی تو ام سلیم اپنے بچوں کے ساتھ بھی کھڑی نہیں ہوئی۔ جب عورت اپنے لخت جگر کے ساتھ کھڑی نہیں ہو سکتی تو امامت کیسے کرائے گی؟ عورت جماعت کی امامت کے وقت مرد امام کی طرح الگ صف میں تنہا کھڑی نہیں ہوگی بلکہ بقول امام شوکانی رحمہ اللہ عورتوں کے ساتھ ہی پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہوگی۔ حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما اسی طرح نماز پڑھاتی تھیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (المصنف لعبد الرزاق :۳ / ۱۴۱‘ والمصنف لابن أبي شیبۃ‘ الصلوات: ۱ /۴۳۰‘ والمحلی لابن حزم:۴ /۲۲۰)۔ راوئ حدیث: [ام ورقہ رضی اللہ عنہا ] ام ورقہ بنت نوفل یا بنت عبداللہ بن حارث بن عویمر۔ انصار میں سے تھیں۔ قرآن کی حافظہ تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوۂ بدر میں شریک ہونے کی اجازت طلب کی مگر آپ نے ان کو اجازت نہیں دی کیونکہ ان کو اپنے گھر ہی شہادت کا مرتبہ ملنے والا تھا۔ آپ ان سے ملاقات کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ آپ نے ان کو شہیدہ کے نام سے موسوم کر رکھا تھا۔ ان کے دو غلام (غلام اور لونڈی) تھے جن کو انھوں نے مدبر بنایا تھا (کہ ان کی موت کے بعد وہ ازخود آزاد ہو جائیں گے) مگر ان دونوں نے مل کر رات کے وقت ان کے گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر مار دیا اور خود راتوں رات فرار ہوگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو گرفتار کرکے دونوں کو سولی پر چڑھا دیا۔ مدینہ منورہ میں یہ پہلے آدمی تھے جن کو سولی دی گئی۔ یہ وہ خاتون تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے اہل خانہ کی عورتوں کی امامت کراتی تھیں‘ اس لیے کہ ان کو قرآن مجید ازبر تھا۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الصلاة، باب إمامة النساء، حديث:592، وابن خزيمة: 3 /89، حديث:1676، والبيهقي في الخلافيات ق4ب. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت فرائض امامت انجام دے سکتی ہے۔ کن کی امامت کرا سکتی ہے؟ اس سے بعض لوگوں کو مغالطہ ہوا ہے کہ گھر کے افراد میں تو مرد بھی ہوتے ہوں گے‘ لہٰذا اس سے تو عورت کا مرد کی امام بننا بھی ثابت ہوتا ہے۔ مگر یہ قطعاً درست نہیں کیونکہ مردوں پر فرض نماز کے لیے مسجد میں حاضری ضروری ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے‘ اس لیے یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ مرد نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا چھوڑ کر عورت کی اقتدا و امامت میں نماز پڑھتے ہوں‘ نیز ابوداود کی تفصیلی روایت کہ جس میں بوڑھے مؤذن کے اذان دینے کا ذکر ہے‘ اس سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ وہ مؤذن بھی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہوگا، لیکن یہ محض ایک احتمال ہی ہے‘ کسی بھی حدیث میں صراحتًا مؤذن کے نماز پڑھنے کا قطعًا ذکر نہیں ملتا، اس لیے غالب احتمال یہی ہے کہ مؤذن اذان دے کر نماز مسجد نبوی ہی میں پڑھتا ہوگا۔ واللّٰہ أعلم۔ علاوہ ازیں مردوں اور عورتوں کی صفوں میں فاصلے والی حدیث بھی اس کی تائید میں ہے کہ مردوں کا عورتوں سے دور رہنا ہی بہتر ہے‘ نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ ‘ یتیم اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم کو جب آپ نے جماعت کرائی تو ام سلیم اپنے بچوں کے ساتھ بھی کھڑی نہیں ہوئی۔ جب عورت اپنے لخت جگر کے ساتھ کھڑی نہیں ہو سکتی تو امامت کیسے کرائے گی؟ عورت جماعت کی امامت کے وقت مرد امام کی طرح الگ صف میں تنہا کھڑی نہیں ہوگی بلکہ بقول امام شوکانی رحمہ اللہ عورتوں کے ساتھ ہی پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہوگی۔ حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما اسی طرح نماز پڑھاتی تھیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (المصنف لعبد الرزاق :۳ / ۱۴۱‘ والمصنف لابن أبي شیبۃ‘ الصلوات: ۱ /۴۳۰‘ والمحلی لابن حزم:۴ /۲۲۰)۔ راوئ حدیث: [ام ورقہ رضی اللہ عنہا ] ام ورقہ بنت نوفل یا بنت عبداللہ بن حارث بن عویمر۔ انصار میں سے تھیں۔ قرآن کی حافظہ تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوۂ بدر میں شریک ہونے کی اجازت طلب کی مگر آپ نے ان کو اجازت نہیں دی کیونکہ ان کو اپنے گھر ہی شہادت کا مرتبہ ملنے والا تھا۔ آپ ان سے ملاقات کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ آپ نے ان کو شہیدہ کے نام سے موسوم کر رکھا تھا۔ ان کے دو غلام (غلام اور لونڈی) تھے جن کو انھوں نے مدبر بنایا تھا (کہ ان کی موت کے بعد وہ ازخود آزاد ہو جائیں گے) مگر ان دونوں نے مل کر رات کے وقت ان کے گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر مار دیا اور خود راتوں رات فرار ہوگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو گرفتار کرکے دونوں کو سولی پر چڑھا دیا۔ مدینہ منورہ میں یہ پہلے آدمی تھے جن کو سولی دی گئی۔ یہ وہ خاتون تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے اہل خانہ کی عورتوں کی امامت کراتی تھیں‘ اس لیے کہ ان کو قرآن مجید ازبر تھا۔