بلوغ المرام - حدیث 33

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْوُضُوءِ حسن وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - فِي صِفَةِ الْوُضُوءِ - قَالَ: ثُمَّ مَسَحَ - صلى الله عليه وسلم - بِرَأْسِهِ، وَأَدْخَلَ إِصْبِعَيْهِ السَّبَّاحَتَيْنِ فِي أُذُنَيْهِ، وَمَسَحَ بِإِبْهَامَيْهِ ظَاهِرَ أُذُنَيْهِ. أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيُّ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَة.

ترجمہ - حدیث 33

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: وضو کے احکام ومسائل حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے وضو کی کیفیت کے بارے میں روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کی شہادت والی انگلیوں کو کانوں میں داخل کیا اور اپنے انگوٹھوں سے کانوں کے باہر کا مسح کیا۔ (اس روایت کو ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1.یہ حدیث اس بات کا نہایت واضح ثبوت ہے کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کانوں کے ظاہر اور باطن دونوں پر مسح فرمایا ہے۔ 2. ظاہر سے مراد کان کا وہ حصہ ہے جو سر کے ساتھ متصل ہوتا ہے اور باطن وہ ہے جو منہ کی جانب ہوتا ہے‘ یعنی اندرونی جانب ۔ 3. امام ترمذی رحمہ اللہ نے کانوں کے ظاہر اور باطن پر مسح کی حدیث بیان کرکے کہا ہے کہ اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ] آپ سہمی قریشی ہیں۔آپ کا سلسلۂ نسب کعب بن لؤی پر نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ اپنے والد سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اپنے والد محترم سے صرف تیرہ برس چھوٹے تھے۔ بڑے پائے کے عالم فاضل‘ حدیث کے حافظ اور عابد تھے۔ بکثرت احادیث نبویہ ان سے مروی ہیں۔ یہ ارشادات نبویہ کو قلم بند کرلیا کرتے تھے۔ ۶۳ یا ۷۰ ہجری میں وفات پائی۔ تدفین کے بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ مکہ مکرمہ میں‘ طائف میں یا مصر میں دفن ہوئے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الطهارة، باب الوضوء ثلاثًا ثلاثًا، حديث:135، والنسائي، الطهارة، حديث:102، وابن خزيمة: 1 / 77، حديث:148. 1.یہ حدیث اس بات کا نہایت واضح ثبوت ہے کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کانوں کے ظاہر اور باطن دونوں پر مسح فرمایا ہے۔ 2. ظاہر سے مراد کان کا وہ حصہ ہے جو سر کے ساتھ متصل ہوتا ہے اور باطن وہ ہے جو منہ کی جانب ہوتا ہے‘ یعنی اندرونی جانب ۔ 3. امام ترمذی رحمہ اللہ نے کانوں کے ظاہر اور باطن پر مسح کی حدیث بیان کرکے کہا ہے کہ اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ] آپ سہمی قریشی ہیں۔آپ کا سلسلۂ نسب کعب بن لؤی پر نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ اپنے والد سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اپنے والد محترم سے صرف تیرہ برس چھوٹے تھے۔ بڑے پائے کے عالم فاضل‘ حدیث کے حافظ اور عابد تھے۔ بکثرت احادیث نبویہ ان سے مروی ہیں۔ یہ ارشادات نبویہ کو قلم بند کرلیا کرتے تھے۔ ۶۳ یا ۷۰ ہجری میں وفات پائی۔ تدفین کے بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ مکہ مکرمہ میں‘ طائف میں یا مصر میں دفن ہوئے۔