كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ وَالْإِمَامَةِ صحيح وَعَنْ أَبِي مَسْعُودٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا - وَفِي رِوَايَةٍ: سِنًّا - وَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: نماز با جماعت اور امامت کے مسائل کا بیان
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں کا امام ایسا آدمی ہو جو قرآن حمید زیادہ پڑھنے والا‘ یعنی حافظ ہو۔ اگر اس وصف میں لوگ مساوی ہوں تو پھر وہ امام بنے جسے سنت نبوی کا علم زیادہ ہو۔ اور اگر سنت کے علم میں بھی لوگ مساوی ہوں تو پھر وہ امام بنے جس نے ہجرت پہلے کی ہو۔ اگر اس وصف میں سب برابر ہوں تو پھر وہ امام بنے جس نے پہلے اسلام قبول کیا ہو۔ اور ایک روایت میں سِلْماً (اسلام) کی بجائے سِنًّا (عمر) کا لفظ بھی ہے (یعنی اگر مذکورہ بالا اوصاف میں سبھی برابر ہوں تو پھر ان میں جس کی عمر زیادہ ہو اسے امام بنایاجائے۔) اور کوئی آدمی کسی آدمی کے دائرۂ اقتدار میں امامت نہ کرائے اور نہ گھر میں اس کی مخصوص نشست پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
اس حدیث کی رو سے امامت ایسے شخص کے سپرد کی جانی چاہیے جو قرآن کو زیادہ یاد رکھتا ہو‘ یا پھر سنت سے زیادہ باخبر ہو‘ یا دین کی خاطر ترک وطن کی سعادت میں قبول اسلام میں اولیت رکھتا ہو‘ یا پھر عمر رسیدہ ہو کیونکہ زیادہ امید ہے کہ جس کی عمر دراز ہوگی اس کے اعمال حسنہ بھی زیادہ ہوں گے۔
تخریج :
أخرجه مسلم، المساجد، باب من أحق بالإمامة، حديث:673.
اس حدیث کی رو سے امامت ایسے شخص کے سپرد کی جانی چاہیے جو قرآن کو زیادہ یاد رکھتا ہو‘ یا پھر سنت سے زیادہ باخبر ہو‘ یا دین کی خاطر ترک وطن کی سعادت میں قبول اسلام میں اولیت رکھتا ہو‘ یا پھر عمر رسیدہ ہو کیونکہ زیادہ امید ہے کہ جس کی عمر دراز ہوگی اس کے اعمال حسنہ بھی زیادہ ہوں گے۔