کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْوُضُوءِ صحيح وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ عَاصِمٍ - رضي الله عنه - فِي صِفَةِ الْوُضُوءِ - قَالَ: وَمَسَحَ - صلى الله عليه وسلم - بِرَأْسِهِ، فَأَقْبَلَ بِيَدَيْهِ وَأَدْبَرَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْه. وَفِي لَفْظٍ: بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ، حَتَّى ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ، ثُمَّ رَدَّهُمَا إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: وضو کے احکام ومسائل
حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے طریقۂ وضو کے متعلق مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح اس طرح کیا کہ دونوں ہاتھ آگے لے کر آئے اور پیچھے لے کر گئے۔ (بخاری و مسلم) بخاری و مسلم کی ایک اور روایت میں اس طرح ہے: آپ سر کے اگلے حصے سے شروع کر کے ہاتھوں کو (سر کے پچھلے حصے) گدی تک لے گئے اور پھر اسی طرح دونوں ہاتھوں کو (سر کے بالوں کا مسح کرتے ہوئے) اسی جگہ واپس لے آئے جہاں سے مسح کا آغاز کیا تھا۔
تشریح :
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مسح کا آغاز سر کے اگلے حصے سے کرنا چاہیے۔ ائمۂ اربعہ کے علاوہ اسحاق بن راہویہ کی بھی یہی رائے ہے۔ لیکن ترمذی میں منقول ایک روایت (جسے امام ترمذی نے حسن کہا ہے) سے معلوم ہوتا ہے کہ سر کے مسح کا آغاز پچھلے حصے سے کرنا بھی جائز ہے۔ اس بنا پر بعض اہل کوفہ کا یہی مذہب ہے۔ وکیع بن جراح بھی انھی لوگوں میں سے ہیں۔ مگر یہ روایت حسن نہیں‘ اس کا راوی عبداللہ بن محمد بن عقیل متکلم فیہ ہے۔ محدثین کی ایک جماعت نے اس پر حافظے کی وجہ سے جرح کی ہے‘ لہٰذا مسح کا پہلا طریقہ ہی صحیح ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ ] آپ انصاری تھے۔ انصار کے قبیلہ ٔبنی مازن بن نجار کے فرد تھے‘ اس لیے مازنی کہلائے۔ غزوئہ احد میں شریک ہوئے۔ جنگ یمامہ میں وحشی کے ساتھ مل کر مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کو قتل کیا۔ ۶۳ ہجری میں معرکہ ٔحرہ کے روز شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوئے۔ یہ عبداللہ بن زید وہ نہیں ہیں جنھوں نے خواب میں اذان سنی تھی بلکہ یہ عبداللہ بن زید بن عاصم ہیں اور وہ عبداللہ بن زید بن عبد ربہ تھے۔ دونوں کے دادا الگ الگ تھے۔ ابن عبد ربہ کا ذکر باب الأذان میں آئے گا۔ إن شاء اللّٰہ۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الوضوء، باب مسح الرأس كله، حديث:185، ومسلم، الطهارة، باب آخر في صفة(الوضوء)، حديث:235.
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مسح کا آغاز سر کے اگلے حصے سے کرنا چاہیے۔ ائمۂ اربعہ کے علاوہ اسحاق بن راہویہ کی بھی یہی رائے ہے۔ لیکن ترمذی میں منقول ایک روایت (جسے امام ترمذی نے حسن کہا ہے) سے معلوم ہوتا ہے کہ سر کے مسح کا آغاز پچھلے حصے سے کرنا بھی جائز ہے۔ اس بنا پر بعض اہل کوفہ کا یہی مذہب ہے۔ وکیع بن جراح بھی انھی لوگوں میں سے ہیں۔ مگر یہ روایت حسن نہیں‘ اس کا راوی عبداللہ بن محمد بن عقیل متکلم فیہ ہے۔ محدثین کی ایک جماعت نے اس پر حافظے کی وجہ سے جرح کی ہے‘ لہٰذا مسح کا پہلا طریقہ ہی صحیح ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ ] آپ انصاری تھے۔ انصار کے قبیلہ ٔبنی مازن بن نجار کے فرد تھے‘ اس لیے مازنی کہلائے۔ غزوئہ احد میں شریک ہوئے۔ جنگ یمامہ میں وحشی کے ساتھ مل کر مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کو قتل کیا۔ ۶۳ ہجری میں معرکہ ٔحرہ کے روز شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوئے۔ یہ عبداللہ بن زید وہ نہیں ہیں جنھوں نے خواب میں اذان سنی تھی بلکہ یہ عبداللہ بن زید بن عاصم ہیں اور وہ عبداللہ بن زید بن عبد ربہ تھے۔ دونوں کے دادا الگ الگ تھے۔ ابن عبد ربہ کا ذکر باب الأذان میں آئے گا۔ إن شاء اللّٰہ۔