بلوغ المرام - حدیث 319

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ صَلَاةِ الْجَمَاعَةِ وَالْإِمَامَةِ صحيح وَعَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ - رضي الله عنه: أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - صَلَاةَ الصُّبْحِ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا هُوَ بِرَجُلَيْنِ لَمْ يُصَلِّيَا، فَدَعَا بِهِمَا، فَجِيءَ بِهِمَا تَرْعَدُ فَرَائِصُهُمَا، فَقَالَ لَهُمَا: ((مَا مَنَعَكُمَا أَنْ تُصَلِّيَا مَعَنَا?)) قَالَا: قَدْ صَلَّيْنَا فِي رِحَالِنَا. قَالَ: ((فَلَا تَفْعَلَا، إِذَا صَلَّيْتُمَا فِي رِحَالِكُمْ، ثُمَّ أَدْرَكْتُمْ الْإِمَامَ وَلَمْ يُصَلِّ، فَصَلِّيَا مَعَهُ، فَإِنَّهَا لَكُمْ نَافِلَةٌ)). رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَاللَّفْظُ لَهُ، وَالثَّلَاثَةُ، وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ.

ترجمہ - حدیث 319

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: نماز با جماعت اور امامت کے مسائل کا بیان حضرت یزید بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو دو ایسے آدمیوں پر نظر پڑی جنھوں نے نماز (آپ کے ساتھ) نہیں پڑھی تھی۔ آپ نے دونوں کو اپنے پاس بلایا۔ وہ آپ کی خدمت میں حاضر کیے گئے تو (خوف کے مارے) ان کے شانے کانپ رہے تھے۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’تمھیں ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟‘‘ انھوں نے عرض کیا : ہم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’ایسا مت کیا کرو۔ اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو، پھر تم امام کو پاؤ کہ اس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے تو تم اس کے ساتھ نماز پڑھو‘ یہ تمھارے لیے نفل ہو جائے گی۔‘‘ (اسے احمد نے روایت کیا ہے۔ اور حدیث کے الفاظ بھی اسی کے ہیں۔ اس کے علاوہ اسے تینوں نے بھی روایت کیا ہے۔ اور ترمذی اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص پہلے نماز پڑھ چکا ہو اور پھر جماعت کے ساتھ شامل ہونے کا موقع بھی میسر آجائے تو اسے جماعت کے ساتھ شامل ہونا چاہیے‘ خواہ کوئی نماز ہو۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔ اس کے برعکس امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک صرف ظہر اور عشاء دو نمازوں میں ایسا کر سکتا ہے باقی میں نہیں‘ لیکن جب دوبارہ نماز پڑھنے کی دلیل یہی حدیث ہے تو پھر باقی نمازیں دوبارہ کیوں نہیں پڑھ سکتا؟ اس لیے امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہی درست ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت یزید بن اسود رضی اللہ عنہ ] ان کی کنیت ابوجابر ہے۔ سوائی عامری ہیں۔ان کے قبیلے کے قریش سے حلیفانہ تعلقات تھے۔ مشہور صحابی ہیں۔ طائف میں فروکش ہوئے۔ ان سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔ اسے ان کے بیٹے جابر رحمہ اللہ نے ان سے روایت کیا ہے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الصلاة، باب فيمن صلى في منزله ثم أدرك...، حديث:575، والترمذي، الصلاة، حديث:219، والنسائي، الإمامة، حديث:859، وابن حبان (الإحسان):3 /50، حديث:1563. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص پہلے نماز پڑھ چکا ہو اور پھر جماعت کے ساتھ شامل ہونے کا موقع بھی میسر آجائے تو اسے جماعت کے ساتھ شامل ہونا چاہیے‘ خواہ کوئی نماز ہو۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔ اس کے برعکس امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک صرف ظہر اور عشاء دو نمازوں میں ایسا کر سکتا ہے باقی میں نہیں‘ لیکن جب دوبارہ نماز پڑھنے کی دلیل یہی حدیث ہے تو پھر باقی نمازیں دوبارہ کیوں نہیں پڑھ سکتا؟ اس لیے امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہی درست ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت یزید بن اسود رضی اللہ عنہ ] ان کی کنیت ابوجابر ہے۔ سوائی عامری ہیں۔ان کے قبیلے کے قریش سے حلیفانہ تعلقات تھے۔ مشہور صحابی ہیں۔ طائف میں فروکش ہوئے۔ ان سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔ اسے ان کے بیٹے جابر رحمہ اللہ نے ان سے روایت کیا ہے۔