بلوغ المرام - حدیث 31

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْوُضُوءِ صحيح وَعَنْ عَلِيٍّ - رضي الله عنه: فِي صِفَةِ وُضُوءِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ: وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ وَاحِدَةً. أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُد، وَأَخْرَجَهُ النَّسَائِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ، بَلْ قَالَ التِّرْمِذِيُّ: إِنَّهُ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي البَابِ.

ترجمہ - حدیث 31

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: وضو کے احکام ومسائل حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ وضو کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرمایا: آپ نے اپنے سر کا مسح ایک مرتبہ کیا۔ (اسے ابوداود نے روایت کیا ہے‘ نیز نسائی اور ترمذی نے بھی اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے‘ بلکہ ترمذی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اس مسئلے میں یہ حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے۔)
تشریح : اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ سر کا مسح ایک مرتبہ ہی فرض ہے۔ اکثر علمائے امت کا یہی مسلک ہے۔ البتہ امام شافعی رحمہ اللہ مسح میں تکرار کے قائل ہیں اور دوسرے اعضاء کی طرح تین بار مسح کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا استدلال ابوداود کی ایک روایت سے ہے لیکن اکثر احادیث (جو صحیحین اور سنن میں مروی ہیں) کی بنا پر جمہور علماء کا مسلک ہی راجح اور اقرب الی الصواب ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت علی رضی اللہ عنہ ] علی بن ابی طالب چوتھے خلیفہ ٔراشد‘ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے والد ماجد اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا زاد بھائی اور داماد تھے۔ جنگ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے کیونکہ اس جنگ میں ان کو مدینے میں بطور خلیفہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ہجری کو منصب خلافت پر فائز ہوئے اور ۱۷ رمضان المبارک ۴۰ہجری کو جمعہ کے دن بوقت صبح کوفہ میں ایک شقی القلب عبدالرحمن بن ملجم نے پے درپے تین وار کر کے شہید کردیا۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الطهارة، باب صفة وضوء النبي صلي الله عليه وسلم، حديث:111 وسنده صحيح، وحديث:115 وسنده حسن، والترمذي، الطهارة، حديث:48، والنسائي، الطهارة، حديث:92-96. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ سر کا مسح ایک مرتبہ ہی فرض ہے۔ اکثر علمائے امت کا یہی مسلک ہے۔ البتہ امام شافعی رحمہ اللہ مسح میں تکرار کے قائل ہیں اور دوسرے اعضاء کی طرح تین بار مسح کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا استدلال ابوداود کی ایک روایت سے ہے لیکن اکثر احادیث (جو صحیحین اور سنن میں مروی ہیں) کی بنا پر جمہور علماء کا مسلک ہی راجح اور اقرب الی الصواب ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت علی رضی اللہ عنہ ] علی بن ابی طالب چوتھے خلیفہ ٔراشد‘ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے والد ماجد اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا زاد بھائی اور داماد تھے۔ جنگ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے کیونکہ اس جنگ میں ان کو مدینے میں بطور خلیفہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ہجری کو منصب خلافت پر فائز ہوئے اور ۱۷ رمضان المبارک ۴۰ہجری کو جمعہ کے دن بوقت صبح کوفہ میں ایک شقی القلب عبدالرحمن بن ملجم نے پے درپے تین وار کر کے شہید کردیا۔